کرم کی آنکھ نہیں دیکھتی لباسوں کو
خلوصِ نیت سائل تلاش کرتی ہے
قیام تلنگانہ سے لگاتار ایک دہے تک برسر اقتدار رہنے کے بعد ریاست میں بی آر ایس اب اپنے وجود کی لڑائی لڑنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ ریاست میں بی آر ایس کا مستقبل فی الحال تابناک دکھائی نہیں دیتا۔ جب اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کو شکست دیتے ہوئے کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی اور اقتدار حاصل کرلیا تھا اس کے بعد ہی سے بی آر ایس کیڈر کے حوصلے پست ہونے شروع ہوگئے تھے ۔ بی آر ایس کیڈر کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ ان کی پارٹی کو تلنگانہ میں شکست نہیں دی جاسکتی جس طرح قومی سطح پر بی جے پی کو یقین ہوچلا تھا کہ وہ بھی ناقابل شکست ہوگئی ہے ۔ تاہم ریاست کے ووٹرس نے اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کا یہ بھرم ختم کردیا اور چند ہی مہینوں میں پارلیمانی انتخابات نے پارٹی کیلئے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ۔ لوک سبھا انتخابات میں بی آرا یس کو ایک نشست پر بھی کامیابی نہیں مل سکی ۔ حالانکہ یہ کہا جارہا ہے کہ بی آر ایس کچھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی تھی لیکن اس نے اپنے ووٹ بی جے پی کو منتقل کروا دئے اور ریاست میں بی جے پی کے سیاسی وجود کو مستحکم کردیا ہے ۔ اس طرح سے بی آر ایس اپنے وجود کو کھوتی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔ ریاست میں کئی قائدین اب بی آر ایس کی صفوں میں بے چینی اور اضطراب محسوس کر رہے ہیں۔ وہ موقع ملتے ہی دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے کوت رجیح دے رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات کے بعد بھی ایسا ہوا تھا ۔ پارلیمانی انتخابات کے دوران بھی ہوا تھا اور اب پارلیمانی نتائج کے بعد بھی بی آر ایس کیلئے یہی صورتحال درپیش آ رہی ہے ۔ بی آر ایس قیادت ایسا لگتا ہے کہ اس سارے عمل سے لا تعلق ہوکر رہ گئی ہے اور وہ حالات کو قابو میں کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے ۔ پارٹی کیڈر میں یہ تبصرے شروع ہوچکے ہیں کہ آیا ریاست میں پارٹی کا کوئی مستقبل بھی رہ گیا ہے ؟ ۔ خود پارٹی قائدین اور کیڈر اپنے اپنے مستقبل کے تعلق سے بھی فکرمند ہونے لگے ہیں اور وہ بھی سینئر قائدین کی طرح دوسری پارٹیوں میں شمولیت کے تعلق سے غور کرنے لگے ہیں۔ کون کب کیا فیصلہ کرتا ہے یہ تو آنے والا وقتہ ی بتاسکتا ہے ۔
جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے اس نے تلنگانہ میں وہی کام کیا ہے جو اترپردیش میں بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے کیا تھا ۔ مایاوتی نے ایک سے زائد مرتبہ اپنی پارٹی کے ووٹ بی جے پی کو منتقل کروائے اور مودی کی کامیابیوں میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے خلاف مقدمات پر کوئی چرچہ نہیں ہو رہا ہے ۔ مایاوتی خاموش زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ اترپردیش کی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مایاوتی کی پارٹی کا وجود ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ یہی طریقہ کار کے سی آر نے تلنگانہ میں حالیہ لوک سبھا انتخابات میں اختیار کیا تھا ۔ انہوں نے اسمبلی انتخابات میں تو مقابلہ کیا تھا اور 39 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ تاہم لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے اپنے ووٹ بی جے پی کو منتقل کروائے ۔ بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد تلنگانہ سے چار سے بڑھ کر آٹھ ہوگئی اور بی آر ایس ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں کرپائی ہے ۔ یہ صورتحال بی آر اسے میں مزید اتھل پتھل کی وجہ بن رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کئی قائدین ایسے ہیں جنہوں نے عملا خود کو پارٹی اور اس کی سرگرمیوں سے دور کرلیا ہے ۔ وہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ انہیں کانگریس میں شمولیت اختیار کرنی چاہئے یا پھر بی جے پی میں ۔ یہ دعوی بھی کئے جا رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت تو کانگریس میں شمولیت اختیار پر غور کر رہی ہے اور وہ مناسب وقت پر فیصلہ کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ جہاں تک کیڈر کی بات ہے تو وہ بھی متفکر ہے اور اپنے اپنے قائدین کے فیصلے کے مطابق خود فیصلہ کرنے کا من بنا چکے ہیں۔
اترپردیش میں بی جے پی کی بالواسطہ مدد کرتے ہوئے مایاوتی نے اپنی شناخت عملا کھودی ہے ۔ یو پی کی سیاست میں ان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور لوک سبھا انتخابات میں ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکامی نے کے چندر شیکھر راؤ کی بی آر ایس کیلئے بھی حالات تبدیل کردئے ہیں۔ بی آرا یس کی جگہ بی جے پی کو فراہم کرنے کی حکمت عملی سے بی آر ایس کا اپنا وجود خطرہ میں پڑ گیا ہے ۔ جس وقت کانگریس حکومت تلنگانہ میں تشکیل پائی تھی اس کے مستقبل کے تعلق سے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے لیکن آج کانگریس کے استحکام کی بجائے بی آر ایس کے مستقبل پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔