تلنگانہ میں بی جے پی کا مستقبل

   

بنام بادہ کشی زہر پی گئے ساقی
نہ پوچھ ہم سے کہ کس امتحاں سے گذرے ہیں
تلنگانہ میں بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اس نے جہاں اسمبلی انتخابات میں محض آٹھ اسمبلی نشستیں حاصل کی تھیں وہیں اسے لوک سبھا انتخابات میں پارلیمنٹ کی بھی 8 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں اس کے ارکان کی تعداد چار تھی جو اس بار دوگنی ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کے دو ریاستی قائدین بنڈی سنجے اور جی کشن ریڈی کو مرکزی کابینہ میں بھی شامل کیا گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی ریاست میں اپنے مستقبل کو زیادہ مستحکم بنانے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہوگئی ہے ۔ ویسے بھی پہلے ہی سے بی جے پی کی تلنگانہ پر ساری توجہ مرکوز رہی ہے ۔ اس نے ریاست میں خود کواقتدار کی دعویدار قرار دیا تھا لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام رہی تھی ۔ تاہم لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے بی جے پی کیڈر کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی دوسری جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کی مہم بھی شروع کرسکتی ہے ۔ بی جے پی کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مرکز میں اکثریت سے محروم ہوجانے اور اقتدار کیلئے دوسری جماعتوں پر انحصار کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ یہ عزائم قدرے نرم پڑ گئے ہوں لیکن یہ ختم ہرگز نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ لوک سبھا انتخابات میں جس طرح سے بی آر ایس قائدین اور کیڈر نے بی جے پی کی مدد کی ہے اور اس کی نشستوں کو دوگنی کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے اس سے بھی پارٹی کے عزائم کا پتہ چلتا ہے ۔ بی آرا یس نے جس طرح سے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے آگے خود سپردگی اختیار کی ہے اس سے بی آر ایس کی کمزوری اور دوہرے معیارات کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات کا عمل پورا ہوچکا ہے ۔ نتائج کا اعلان ہوچکا ہے ۔ مرکز میں حکومت بھی تشکیل پا گئی ہے ۔ ریاست سے تعلق رکھنے والے قائدین کو بھی مرکزی کابینہ میںجگہ دیدی گئی ہے ایسے میں بی جے پی کیلئے ماحول سازگار ہوسکتا ہے ۔ دوسری جماعتوں اور ان کے قائدین و ذمہ داروں کو اس تعلق سے چوکسی برتنے اور اپنی صفوں کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے ۔
بی جے پی ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل خود کو بی آر ایس کا متبادل قرار دے رہی تھی اور یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ بی آر ایس اور بی جے پی کے مابین ہی اصل مقابلہ ہے اور کانگریس مقابلہ سے باہر ہے ۔ خود بی آر ایس بھی یہی دعوی کر رہی تھی کہ کانگریس کا وجود نہیںہے اور بی آر ایس کا مقابلہ بی جے پی سے ہی ہے ۔اس طرح کے دعووں سے خود یہ شکوک پیدا ہو رہے تھے کہ دونوں جماعتوں میں ایک دوسرے سے خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے اور وہ کانگریس کے وجود سے انکار کر رہے ہیںتاہم کانگریس نے اس دعوی کو غلط ثابت کردکھایا اور خود اقتدار حاصل کرلیا ۔ کانگریس کے اقتدار حاصل کرلینے کے بعد بی آر ایس کے حوصلے پست ہونے لگے ۔ بی آر ایس لیڈر کے کویتا کو ای ڈی نے گرفتار بھی کرلیا اور ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد سے بی آرا یس نے ریاست میں بی جے پی کیلئے راہ ہموار کرنی شروع کردی تھی ۔ بی آر ایس کے کیڈر اور اس کے قائدین نے جس طرح سے لوک سبھا انتخابات میں اپنے ووٹ بی جے پی کو منتقل کروائے ہیں وہ اب سب پر عیاں ہوگیا ہے ۔ دونوں جماعتیں بھلے ہی اس حقیقت سے انکار کریں لیکن رائے دہی کے دن سبھی نے دیکھا کہ بی آر ایس کیڈر کس کیلئے کام کر رہا تھا ۔ خود بی آر ایس رکن اسمبلی ملا ریڈی نے پولنگ سے پہلے بی جے پی امیدوار ایٹالہ راجندر سے کہا تھا کہ وہی ملکاجگری حلقہ سے کامیاب ہونگے ۔ یہ ایک واضح اور کھلا اشارہ تھا کہ دونوں ہی جماعتوں میں خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے اور کانگریس کی جانب سے اس سلسلہ میں جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں وہ بے بنیاد ہرگز نہیں ہیں۔
اب جبکہ تمام شکوک حقیقت میں بدلتے نظر آگئے ہیں اور انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے ایسے میں بی جے پی ریاست میں اپنے قدم مزید مضبوط کرنے کیلئے کوشش کرے گی ۔ ایسے میں ریاست کی دوسری جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بی جے پی کو اس کے عزائم میں کامیاب ہونے کا موقع فراہم نہ کرے ۔ اپنی صفوںکو مستحکم اور متحد کرنے پر توجہ دی جائے ۔ انحراف کے امکانات کو کم سے کم کیا جائے ۔ اپنے قائدین اور کیڈر کے حوصلے بلند رکھے جائیں اور بی جے پی کو اپنے قدم جمانے کا موقع بالکل بھی فراہم نہ کیا جائے ۔