تلنگانہ میں بی جے پی کا وجود

   

ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ۔ آئندہ دنوں میں کسی بھی وقت الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلامیہ جاری ہوسکتا ہے ۔ ان میں ہماری اپنی ریاست تلنگانہ بھی شامل ہے ۔ تلنگانہ میں سیاسی صورتحال ہرگذرتے دن کے ساتھ بدلتی جا رہی ہے ۔ بی جے پی اور بی آر ایس کے قائدین مسلسل کانگریس میںشمولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ صورتحال اس قدر غیر یقینی ہوگئی ہے کہ بی آر ایس کی جانب سے اگر ناراض قائدین کو منانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں تو ناراضگیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ کوئی قائد آج اگر پارٹی ہائی کمان کی بات تسلیم کررہا ہے تو دوسرے ہی دن اس کے خلاف بیان بازی ہو رہی ہے ۔ بی جے پی کا توسب سے برا حال ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ بی جے پی کے کئی سینئر اور اہم قائدین اب پارٹی سے انحراف کی تیاری میں جٹے ہوئے ہیں۔ بی جے پی بھی اپنے قائدین کو تھامے رکھنے کی حتی المقدور کوشش کر رہی ہے تاہم یہ کوششیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ کچھ قائدین ایسے ہیںجنہیں سابق ریاستی صدر بنڈی سنجے کے طرز کارکردگی سے مسئلہ درپیش تھا تو کچھ ایسے ہیں جنہیں موجودہ ریاستی صدر جی کشن ریڈی سے ناراضگی ہے ۔ کچھ مرکزی قیادت کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں تو کچھ قائدین ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ پارٹی اپنی پرانی کٹر ہندوتوا کی پالیسی کو شدت کے ساتھ تلنگانہ میں بھی اختیار کرے ۔ تلنگانہ کے کئی قائدین ایسے ہیں جو نہیں چاہتے کہ بی جے پی ریاست میںکٹر ہندوتوا کی پالیسی اختیار کرے ۔ اس صورتحال میں پارٹی کی ریاستی اور مرکزی قیادت دونوں ہی ایسا لگتا ہے کہ الجھن کا شکار ہیں اور وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حالات کو قابو میں کرنے اور قائدین کو تھامے رکھنے کیلئے کیا کچھ کیا جائے اورکس طرح سے انہیں پارٹی میں مطمئن رکھا جائے ۔ تاہم یہ کوششیں اور حکمت عملی اب تک تو ناکام ہی نظر آئی ہے ۔ کئی سینئر قائدین اپنے قریبی اور نجی حلقوں میں پارٹی سے اظہار بیزارگی کرنے لگے ہیں اور یہ شبہات تقویت پانے لگے ہیں کہ وہ بھی انتخابی شیڈول کی اجرائی کے آس پاس پارٹی سے انحراف کرسکتے ہیں۔
بی جے پی کی جہاں تک بات ہے تو آج کی تاریخ میں ایک بھی اسمبلی حلقہ ایسا نہیںرہ گیا ہے جہاں بی جے پی پورے یقین سے کامیابی کی امید کرسکے ۔ گوشہ محل میں پارٹی کو امید رہا کرتی تھی تاہم گوشہ محل میں ملعون راجہ سنگھ کو پارٹی نے معطل کردیا ہے ۔اب ریاست میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور پارٹی کی ساکھ کے متاثر ہونے کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی راجہ سنگھ کی معطلی برخواست کرنے کی کوششیںشروع کرچکی ہے ۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی نے محض ایک حلقہ گوشہ محل سے کامیابی حاصل کی تھی ۔ بعد میں ضمنی انتخابات میں دو حلقے بی جے پی نے جیتے تھے تاہم موجودہ حالات میں بی جے پی کو کہیں بھی کامیابی کی امید نہیں رہ گئی ہے ۔ جب سینئر قائدین اپنی بے چینی میں شدت محسوس کریں گے تو وہ بھی پارٹی چھوڑ دیں گے اور پھر ریاست میں بی جے پی کا سیاسی وجود بمشکل ہی برقرار رہ پائے گا ۔ اس حقیقت کو ہی پیش نظر رکھتے ہوئے بی جے پی شائد راجہ سنگھ کی معطلی برخواست کرنا چاہتی ہے ۔ کچھ سیاسی گوشے ایسے بھی ہیں جو بالواسطہ بی جے پی کی مدد چاہتے ہیں اور وہ بھی اسی کوشش میں ہیں کہ اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کیلئے راجہ سنگھ کی معطلی کو برخواست کرتے ہوئے اسے انتخابی میدان میں ڈھکیلا جائے ۔اس سے ریاست میں ایک بار پھر اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے اور پھر کچھ لوگ سیاسی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ جس طرح سے ریاست میں کانگریس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کا موقف مستحکم ہوتا جا رہا ہے ۔ مختلف جماعتوں کے قائدین لگاتار کانگریس میں شمولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اس نے کئی جماعتوں اور قائدین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کھلے عام اس کا اظہار نہیں کر پا رہے ہیں یا کرنا نہیں چاہتے لیکن وہ اپنے اپنے طور پر اپنی حکمت عملی بنانے اور اپنے موقف کو مستحکم بنانے کی اپنے طور پر کوششیں ضرور شروع کرچکے ہیں۔ بی جے پی بھلے ہی اپنے طور پر کوششیں کر رہی ہے لیکن جو حالات ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس بار بھی بی جے پی ریاست میں اپنے سیاسی قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہوگی اور اسے بمشکل ایک آدھ ہی نشست پر اکتفاء کرنا پڑیگا ۔