تلنگانہ میں جرائم بڑھ گئے

   

محمد نعیم وجاہت
7 منشیات کا خاتمہ کرنے سنجیدہ کوشش ضروری
7 سوشیل میڈیا پر تحدیدات لگائی جائیں

ریاست تلنگانہ ملک بھر میں کئی معاملات میں سرفہرست حکومت کے دعوؤں کے مطابق آبپاشی پراجیکٹس، زرعی سرگرمیوں، فلاحی اسکیمات، شرح ترقی، برقی سربراہی آبرسانی کے علاوہ کئی معاملات میں سب سے آگے ہونے پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے اور دوسرے ریاستوں سے تقابل کرتے ہیں۔ وزراء اور عہدیدار پیش پیش رہتے ہیں اور بی جے پی ۔ کانگریس کے زیرقیادت ریاستوں میں عوام کو ایسی سہولتیں نہ ملنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم گزشتہ دو سال سے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی ابتر صورتحال، اغوا، عصمت ریزی، خواتین اور قتل کی واردات کے علاوہ سائبر کرائم میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ بالخصوص ریاست تلنگانہ کے صدر مقام شہر حیدرآباد اور اس کے اطراف مضافاتی علاقوں میں 2 ماہ کے دوران تقریباً 50 قتل کی وارداتیں پیش آئی ہیں جس میں چند ایک قتل تو سنسنی خیز رہے ہیں۔ بیچ سڑک پر تلواروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کو دیکھنے پر رونگھٹے کھڑے ہوگئے ہیں۔ خواتین اور کمسن لڑکیوں کی عصمت ریزی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور آئے دن قتل اور عصمت ریزی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت، وزراء اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے تلنگانہ کی پولیس ملک کی نمبرون پولیس ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ تلنگانہ کی فرینڈلی پولیسنگ کو ملک کیلئے مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ باوجود اس کے شہر حیدرآباد کے علاوہ ریاست کے مختلف اضلاع میں جرائم کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا ہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آئی۔ ’’این سی آر بی‘‘ رپورٹ میں اس کا انکشاف ہوا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں ایک سال کے دوران جرائم کی شرح میں 12% اضافہ ہوا ہے، لیکن اب بھی حکومت کے مختلف گوشے ریاست میں صورتحال کو بہتر قرار دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تلنگانہ میں اغواء کے واقعات میں 13.59% اضافہ ہوا ہے، جبکہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں سال 2018ء تا 2020ء کے دوران 11.01% کا اضافہ ہوا ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم اور جرائم میں تلنگانہ ملک کی سرفہرست ریاستوں میں پانچویں مقام پر پہنچ چکی ہے۔ ریاست میں قبائیلی طبقہ کے خلاف جرائم میں 17.4% کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت تلنگانہ کو اپنی شرح ترقی ہو یا کورونا وائرس پر قابو پانے یا کورونا ٹیکہ اندازی ہو یا فلاحی اسکیمات کے معاملے میں قومی اوسطاً دیکھنے کا خبط سوار ہوتا ہے اور ہر معاملے میں ریاست کو نیشنل ایورج سے بہتر قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ریاست میں جرائم بالخصوص مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کے بلند بانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن ان پر کس حد تک عمل کیا جارہا ہے۔ اس کا انکشاف نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ میں ہوچکا ہے۔ این سی آر بی کی یہ رپورٹ سال 2020ء کی ہے لیکن ریاست میں انصاف رسانی کا عمل کس حد تک کارگرد ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تشکیل تلنگانہ کے بعد شہر حیدرآباد کے مہدی پٹنم، ملٹری علاقہ میں ایک معصوم کا قتل، کشن باغ پولیس فائرنگ، آلیر انکاؤنٹر، بدنام زمانہ نعیم انکاؤنٹر کی تحقیقات کیلئے حکومت کی جانب سے (ایس آئی ٹی) خصوصی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے اور برسوں گزر جانے کے باوجود اب تک ان تحقیقاتی ٹیموں کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ تحقیقاتی عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوا یا رپورٹ تیار ہوچکی ہے۔ اس سے بھی ریاست کے عوام لاعلم ہے۔ ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں، رضاکارانہ تنظیمیں اور جہد کار بالخصوص متاثرین کے ارکان خاندان رپورٹس کے منتظر ہیں۔ شفافیت اور جوابدہی کا نظم و نسق چلانے کا دعویٰ کرنے والے حکومت کے ذمہ داروں کو اس کی وضاحت کرنا چاہئے۔ سائبر کرائم ہو یا پھر آن لائن دھوکہ دہی کے واقعات ہو ان تمام کیلئے ریاستی حکومت نے خصوصی سیل کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے، لیکن سائبر کرائم کا یہ سیل بھی مکمل طور پر کارکرد ثابت نہیں ہورہا ہے۔ سائبر کرائم کے مجرمین ٹیلی فون کرکے پولیس عہدیداروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور انہیں پکڑنے کا چیلنج کررہے ہیں۔ ریاست بالخصوص شہر حیدرآباد میں منشیات کا چلن عام ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کاروبار میں خواتین بھی شامل ہیں۔ فلمی ستاروں کو بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہیں۔ انہیں پر منشیات لینے کے الزامات ہیں اور وہ تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔ اعلیٰ عہدیداروں اور عوامی منتخب نمائندوں پر منشیات کے کاروبار میں ملوث رہنے والوں کی سرپرستی کرنے کے بعد الزامات ہیں یا ایسی سرگرمیوں کو نظرانداز کردیا جارہا ہے جس سے جرائم بالخصوص خواتین کے اغوا اور عصمت ریزی اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ عوامی منتخب نمائندوں کو منشیات کی لعنت سے نوجوان نسل کو چھٹکارہ دلانے کیلئے رول ماڈل بننا چاہئے۔ سیاست سے بالاتر ہوکر اس جانب توجہ دینی چاہئے۔ ایک دوسرے کو قصور وار قرار دینے یا نیچا دکھانے یا سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے ’وائیٹ چیلنج‘کرنے کے بجائے ’’منشیات‘‘ کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ کوشش کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اپوزیشن اور حکمران طبقہ کو باہمی رضا مندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے سوشیل میڈیا پر تحدیدات عائد کرتے اور اس کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے لیکن اس کو بھی دیکھو اور نظرانداز کرو کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے جوکہ سائبر کرائم کیلئے اہم ہتھیار بنا جارہا ہے۔ تلنگانہ میں جرائم کی شرح پر قابو پانے کیلئے سب سے پہلے انتظامی صلاحیتوں کے حامل عہدیداروں کی خدمات کے حصول کے ساتھ انہیں بااختیار بنانے کے اقدامات کرنا ضروری ہے تاکہ منشیات کی اسمگلنگ کے ریاکٹس کو بے نقاب کیا جاسکے اور اس کے ذمہ داروں کو حراست میں لینے پر ہی جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔