تلنگانہ میں سیاسی ہلچل

   

ہر چہرہ بے حسی کی علامت ہے آج کل
پتھر تراشنے کی ضرورت نہیں رہی

ریاست تلنگانہ میں سیاسی ہلچل پیدا ہوگئی ہے ۔ منگوڑ اسمبلی حلقہ سے ریاست کے سیاسی مستقبل کا اندازہ لگانے کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ منگوڑ اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ ریاست کی سیاست کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا اور اسی سے اندازہ کیا جاسکے گا کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میںکیا صورتحال ابھر کرسامنے آسکتی ہے ۔ پہلے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے منگوڑ اسمبلی حلقہ کا دورہ کیا اور جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کی انتخابی مہم کا عملا آغاز کردیا ۔ اس کے دوسرے دن مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بی جے پی کی انتخابی مہم شروع کرنے وہاںپہونچ گئے ۔ امیت شاہ کے دورہ کے کئی پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف منگوڑ حلقہ پر نظر رکھی تھی اور وہاں جلسہ سے خطاب کیا بلکہ انہوں نے ریاست کے آئندہ اسمبلی نتخابات کا بھی ایک طرح سے ماحول بنانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ انہوں نے تلگودیشم کو ایک بار پھر ریاست میںفعال و متحرک کرنے کی ایک طرح سے کوشش شروع کی ہے ۔ حاالانکہ تلگودیشم سربراہ چندرا بابو نائیڈو سے انہوں نے راست ملاقات نہیں کی ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ درپردہ مشاورت شروع ہوچکی ہے ۔ اسی سلسلہ کے طور پر امیت شاہ نے تلگو فلموں کے مقبول اداکرا جونئیر این ٹی آر سے ملاقات کی ہے جو چندرا بابو نائیڈو کے رشتہ دار ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ امیت شاہ نے ریاست کے ماحول کو گرمانے کی کوشش کے طور پر امیت شاہ سے ملاقات کی ہے اور وہ ریاست کے انتخابی ماحول کو ہمہ جہتی بنانا چاہتے ہیں تاکہ بی جے پی کو ممکنہ حد تک فائدہ ہوسکے ۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ماضی میں ایک دوسرے سے کٹر مخالفت والا رویہ اختیار کرنے والی جماعتوں بی جے پی اور تلگودیشم میں انتخابی اتحاد اور مفاہمت بھی ہوسکتی ہے تاہم اس کیلئے پڑوسی ریاست آندھر ا پردیش کی صورتحال کو بھی نظر میں رکھنا پڑے گا ۔ آندھرا پردیش میںبرسر اقتدار وائی ایس آر کانگریس پارٹی بالواسطہ طور پر بی جے پی کی ہر مسئلہ پر تائید کر رہی ہے جس طرح چند ماہ قبل تک تلنگانہ کی برسر اقتدار پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کر رہی تھی ۔
منگوڑ اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کانگریس کے کومٹ ریڈی راج گوپال ریڈی کر رہے تھے ۔ انہوں نے اسمبلی کی رکنیت اور کانگریس دونوں سے استعفی پیش کردیا ۔ وہ بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ بی جے پی وہاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ریاست کی سیاست پر اپنی گرفت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کو روکنے کی کوشش کے نام پر ٹی آر ایس بھی ساری طاقت جھونکنے سے گریز نہیں کر رہی ہے اور ان دونوں کی لڑائی میں جس پارٹی کو اس حلقہ سے گذشتہ انتخابات میں کامیابی ملی تھی وہی پیچھے ہوتی جا رہی ہے ۔ کانگریس نے بھی ویسے تو منگوڑ میں اپنی مہم شروع کردی ہے اور اپنے طور پر عوام سے رابطے بحال کئے جا رہے ہیں۔ تاہم یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ منگوڑ میں اصل مقابلہ ٹی آر ایس اور بی جے پی میں ہوگا ۔ در اصل یہ بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ہے کہ وہ ہر منظر سے کانگریس کو غائب کرنا چاہتی ہے اور ٹی آر ایس بھی اسی سیاسی چال کا حصہ بنتی جا رہی ہے ۔ دونوں ہی جماعتیں نہیںچاہتیں کہ کانگریس کو کسی بھی طرح کی کوئی کامیابی حاصل ہوسکے ۔ ریاست کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس اور بی جے پی دونوں ہی جماعتیں در اصل آئندہ اسمبلی انتخابات کو ٹی آر ایس ۔ بی جے پی مقابلہ کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہیں اور کانگریس کو مقابلہ سے باہر دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ امیت شاہ نے اسی کوشش کے طور پر تلنگانہ میں تلگودیشم کو دوبارہ متحرک اور فعال بنانے کی کوشش شروع کی ہے اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ کوششیں مزید پیشرفت بھی کرسکتی ہیں۔
کومٹ ریڈی راج گوپال ریڈی کے استعفی نے ریاست کی صورتحال کو متحرک کردیا ہے ۔ اچانک ہی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ عوامی نمائندوں کی بولیاں لگ رہی ہیں اور انہیں خریدا جا رہا ہے ۔ عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں کا سلسلہ آئندہ اسمبلی انتخابات تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گا ۔ موجودہ صورتحال میں عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی ہلچل کا اثر قبول کئے بغیر سنجیدگی سے امیدواروں اور پارٹی کے تعلق سے غور و فکر کریں اور اپنے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ووٹ کا استعمال کریں۔