تلنگانہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی

   

عام انگریزیت کی ہے تقلید
اپنی اُمت کا یہ ہوا ہے حال
تلنگانہ کو فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے نشانہ پر رکھا ہوا ہے ۔ وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی بہانے سے ریاست میں پرامن فرقہ وارانہ فضاء کو متاثر کرنے اور نفرت پھیلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہر مسئلہ کو ہوا دیتے ہوئے اپنے منفی عزائم کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ریاست کے امن وا مان کو متاثر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ جو تنظیمیں اور ادارے شمالی ہند میں اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے دھڑلے سے قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اشتعال انگیز بیانات سے گریز نہیں کیا جاتا ‘ مسلمانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہی تنظیمیں اب اپنے عزائم کو جنوبی ہند کی ریاستوں میں روبعمل لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بی جے پی جنوبی ہند میں کسی بھی ریاست میں اقتدار نہیں رکھتی اور تمام جنوبی ریاستوں کے عوام نے اسے مسترد کردیا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں بی جے پی کو تلنگانہ سے امیدیں وابستہ ہوئی ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں بی آر ایس کی بالواسطہ مدد کے ذریعہ بی جے پی نے لوک سبھا کی 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس کے بعد پارٹی کو تلنگانہ میں اپنے لئے امیدیں دکھائی دینے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بجرنگ دل اور دوسری ہندوتوا تنظیمیں ریاست میں وقفہ وقفہ سے پرامن ماحول کو مکدر کرنے اور متاثر کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ مقامی اور معمولی نوعیت کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کیا جا رہاہے ۔ یہاں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کے تحت ہی کام کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک منفی حکمت عملی ہے جو ریاست کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درہم برہم کرنے کیلئے اختیار کی جا رہی ہے ۔ ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو ریاست میں پہلے کبھی پیش نہیں آتے تھے یا پھر ان پر اس طرح کا رد عمل نہیںسامنے آیا کرتا تھا ۔ کچھ طاقتیں پہلے ہی سے ریاست کی فضاء کو مکدر کرنے کیلئے سرگرم رہا کرتی تھیں اور اب ان کے حوصلے بھی بلند ہونے لگے ہیں اور وہ کھلے عام اشتعال انگیزی سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے عناصر پر لگام کسنا اور ان پر روک لگانا ریاست کے امن و امان کیلئے ضروری ہے ۔
جینور میں گذشتہ دن جو واقعات پیش آئے ہیں وہ اچانک پھوٹ پڑنے والا تشدد نہیں ہے ۔ یہ اچانک ابلنے والی برہمی نہیں ہے ۔ ایک واقعہ چند دن قبل پیش آیا تھا اور اس کو عوام کے ذہنوں میں لاوے کی طرح ابالتے ہوئے تشدد کی راہ ہموار کی گئی اور مسلمانوں کی جائیداد و املاک کو نقصان پہونچایا گیا ۔ پولیس کا دعوی ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن جو مالی نقصان ہوا ہے وہ بھی بہت زیادہ ہے ۔ یہ ایک منظم سازشی حکمت عملی ہے کہ جہاں کہیں موقع ملے مسلمانوں کے ذریعہ معاش کو تباہ کردیا جائے ۔ ان کی آمدنی کے ذرائع بند کردئے جائیں۔ ان کو معاشی مشکلات کا شکار کردیا جائے اور پھر انہیں مقدمات کا شکار کرتے ہوئے مزید مشکلات سے دوچار کردیا جائے ۔ یہ ایک طرح کا سیاسی پیٹرن نظر آتا ہے اور اس پر عمل آوری کرتے ہوئے جینور میں بھی تشدد برپا گیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس نے اس سارے معاملے میں خاموش تماشائی کا رول ادا کیا ہے ۔ پولیس نے لا اینڈ آرڈر بگڑنے سے قبل ہی احتیاطی اقدامات نہیں کئے اور نہ ہی تشدد پر آمادہ ہجوم پر قابو پانے کیلئے ہلکی سی بھی طاقت کا استعمال کیا ۔ پولیس کی مجرمانہ غفلت بھی اس طرح کے واقعات کیلئے ذمہ دار کہی جاسکتی ہے ۔ فسادیوں پر بروقت کارروائی کی جاتی اور ان کے خلاف ہلکی سی بھی طاقت کا استعمال کیا جاتا تو پھر صورتحال اس حد تک نہیں بگڑ پاتی اور نہ ہی مسلمانوں کا اس قدر بھاری مالی نقصان ممکن ہو پا تا ۔
گذشتہ دنوں حیدرآباد کے پرانے شہر میں ایک معمولی واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی تاہم اس میں فرقہ پرستوں اور شرپسندوں کو کامیابی نہیں ملی ۔ اسی طرح جینور میں بھی تشدد برپا کیا گیا اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ان تنظیموںاور ان کے کارکنوں کے ارادے اور عزائم ٹھیک دکھائی نہیں دیتے ۔ پولیس کو اس کا نوٹ لینے کی اور قبل از وقت احتیاطی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کو بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور لا اینڈ آرڈر کو بگاڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جو پولیس عہدیدار صورتحال کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی سے تغافل برتیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے ۔