تلنگانہ میں لاک ڈاؤن

   

تو میری نوک قلم سے ابھی ناواقف ہے
چاک در چاک کئے جائے گا نشتر میرا
تلنگانہ میں لاک ڈاؤن
چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ریاست تلنگانہ کے عوام سے اپیل کی کہ وہ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کریں تاکہ مہلک وباء کوروناوائرس سے بچا جاسکے۔ ریاست کی معاشی صورتحال کی ابتری کے بارے میں انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ریاست یا ملک کی معیشت کو دوبارہ بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن انسانی جانوں کے نقصانات کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا عوام الناس کو اپنی جان کی حفاظت کیلئے لاک ڈاؤن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ان کی حکومت نے عوام کی حفاظت کو مدنظر رکھ کر سخت اقدامات کئے ہیں ان کی حکومت کوئی جوکھم مول لینا نہیں چاہتی۔ 7 مئی تک لاک ڈاؤن میں توسیع کے ذریعہ ریاست کے عوام کو اس مہلک بیماری سے بچانا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ عوام کی زندگیوں اور صحت کا خیال رکھتے ہوئے اب تک کئے گئے اقدامات کے نتائج بھی بہتر نکل رہے ہیں۔ جہاں تک کوروناوائرس کے مریضوں کے علاج معالجہ کا سوال ہے اس بارے میں حکومت نے محکمہ صحت کو دن رات مصروف رکھا ہے۔ اس کوشش کے باوجود مریضوں کی جانب سے شکایات سامنے آرہی ہیں کہ دواخانوں میں انہیں بہتر سہولتیں فراہم نہیں کی جارہی ہیں یا جن لوگوں کو کورنٹائن کیا گیا ہے ان کی بہتر دیکھ بھال نہیں ہورہی ہے۔ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنا ایک الگ مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ کوروناوائرس کے متاثرین کو بچانا ہے اور اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کا پتہ چلانا ہے۔ ریاستی ہو یا مرکزی حکومت صرف لاک ڈاؤن کے ذریعہ کوروناوائرس سے عوام کو بچنے کی سہولت دے رہی ہے یا ان پر سختی کرکے وائرس کے پھیلاؤ کو روک رہی ہے یہ کوشش ایک لحاظ سے عوام کی بڑی تعداد کو وائرس سے محفوظ رکھ سکتی ہے مگر جو لوگ وائرس کا شکار ہوچکے ہیں ان کا کس طرح پتہ چلا جائے اس طرح کی ٹسٹنگ نہیں ہورہی ہے۔ پوری ریاست بالخصوص دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں عوام کی زیادہ سے زیادہ ٹسٹنگ کی ضرورت ہے کیونکہ جو لوگ وائرس کی زد میں آ چکے ہیں ان کا فوری پتہ چلا کر انہیں کورنٹائن کیا جانا ضروری ہے ورنہ جب 7 مئی کے بعد لاک ڈاؤن ختم ہوجائے گا تو کوروناوائرس سے متاثرہ افراد جن کی ٹسٹنگ نہیں ہوسکی وہ لوگ باہر نکل کر دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔ اس طرح یہ وائرس تیزی سے حملہ کرسکتا ہے پھر 25 مارچ سے 7 مئی تک یا اس کے بعد کے ایام تک لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنے کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے کنٹینمنٹ زونس میں عوام کی ٹسٹنگ بھی کم ہورہی ہے۔ پرانے شہر جیسی گنجان آبادی والے علاقہ میں عوام کی بڑی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی گذارتی ہے ان میں زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت کی بنیاد پر محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کا پیٹ بھرتے ہیں۔ ایسے میں چیف منسٹر کے سی آر کو چاہئے تھا کہ وہاں طبی عملہ کی خدمات کو بڑھا کر ہر گھر میں ٹسٹنگ کروائیں اور ان غریبوں کیلئے بہترصحت اور اناج و راشن کی فراہمی کا انتظام کریں۔ دیکھا یہ جارہا ہیکہ جہاں کہیں کیس سامنے آرہا ہے وہی علاقہ کو کورنٹائن کیا جارہا ہے جبکہ دیگر علاقوں میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ اس قدرلاک ڈاؤن پر سختی سے عمل آوری کے باوجود ملک بھر میں وائرس متاثرین کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔ ریاست تلنگانہ اور خاص کر دونوں شہروں میں لاک ڈاؤن کے باوجود متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے تو یہ حکومت کیلئے بھی تشویش میں اضافہ کا باعث ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر بلاشبہ اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں اور وہ اپنے وسائل سے بڑھ کر کورونا سے بچاؤ کیلئے تمام تر اقدامات کررہے ہیں۔ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ حد سے زیادہ احتیاط سے کام لیں۔ دانستہ یا غیردانستہ طور پر عوام اس وائرس کو پھیلانے کا کام کررہے ہیں تو پھر لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے حکومت کے سخت اقدام کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس وائرس کا خطرہ جب تک برقرار رہے اس سے کوئی بھی انسان محفوظ نہیں ہے۔ لہٰذا مہلک وائرس کے خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے حکومت کے اقدامات کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں اس کوروناوائرس سے متعلق حالات دیگر ریاستوں جیسے مہاراشٹرا، ٹاملناڈو، دہلی، کرناٹک سے بہتر ہیں لیکن عوام کی لاپرواہی سے حکومت کے سخت اقدامات زائل ہوتے ہیں تو یہ بڑے خطرہ کی علامت ہے۔