تلنگانہ میں مسلمانوں کی قبل از وقت انتخابی حکمت عملی کی تیاری ضروری

,

   

سیاسی اہمیت و وقعت کو گھٹانے کی کوششیں تیز ۔ سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے سبھی گوشوں کی جدوجہد لازمی ۔ مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے

حیدرآباد28اگسٹ(سیاست نیوز) تلنگانہ میں مسلمانوں کو سیاسی حکمت عملی تیار کرکے انہیں اپنی سیاسی اہمیت و وقعت کو گھٹنے سے بچانے کی جدوجہد کرنی ہوگی کیونکہ بی جے پی منظم انداز میں تلنگانہ کے مسلم ووٹوں کی اہمیت کو گھٹانے اور انہیں حاشیہ پر پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت تلنگانہ کی نرم ہندو توا پالیسیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے بی جے پی نے بھی اہم طبقات منورو کاپو‘ کما طبقہ کے علاوہ ریڈی اور دیگر طبقات بالخصوص بی سی طبقات کے قائدین اور ان طبقات کی ترقی کی حکمت عملی تیار کر رہی ہے ۔ بی جے پی کے اس طریقہ کارکو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس نے بھی ان پر توجہ دینی شروع کردی ہے لیکن ریاست میں 14 فیصد مسلم آبادی کیلئے تاحال کسی سیاسی جماعت نے کوئی منصوبہ یا حکمت عملی تیار نہیں کی ہے جبکہ بی جے پی مسلمانوں کے ووٹوں کو منقسم کرنے کی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں متحدہ طور پر کسی ایک جماعت کے ساتھ ہونے سے روکنے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے اگر عاجلانہ انتخابات کا فیصلہ ہوتا ہے ہے تو تلنگانہ کی 14 فیصد مسلم آبادی اپنی سیاسی حکمت عملی تیار کرنے کے مؤقف میں نہیں رہے گی اسی لئے تلنگانہ کی مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے قائدین کو انتخابات سے قبل دوراندیشی کے ساتھ حکمت عملی تیار کرکے اسمبلی انتخابات کے دوران ووٹوںکو تقسیم سے بچانے منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور اس منصوبہ بندی سے قبل دانشوران قوم و ملت کو اپنے مطالبات اور زیر التواء مسائل کی فہرست کی تیاری کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرنا ان سے تیقن حاصل کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ایسا نہ کرنے پر نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں سے مسلمانوں کے مفادات کیلئے کسی منصوبہ کے اعلان کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اگر بی جے پی اترپردیش کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے تو مسلم ووٹوں کی تقسیم سیکولر جماعتوں کے ساتھ مسلمانوں کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ ریاست میں بی جے پی کو استحکام سے روکنے مسلم رائے دہندوں کو اپنے ووٹوں کی تقسیم کو بچانے کے ساتھ ان قدر و قیمت کا احساس دلوانے کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی ۔ ریاست کی مسلم تنظیموں کے ذمہ دار اگر سیکولر جماعتوں کے قائدین سے انتخابات سے قبل طمانیت حاصل کرکے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ان کے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے اورتلنگانہ اسمبلی میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کی حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے لیکن اگر برسراقتدار جماعت پر انحصار کرکے خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو میں بی جے پی اکثریتی طبقہ کے ووٹ حاصل کرنے اور اقلیتی ووٹ تقسیم کرکے انہیں غیر اہم کرنے کی پالیسی پر عمل کرکے تلنگانہ میں استحکام حاصل کرسکتی ہے۔ ریاستی مسلمانوں کے بنیادی مسائل میں ان کی معاشی ‘ تعلیمی ‘ سماجی ترقی کے علاوہ انہیں امکنہ کی فراہمی کے مسائل اور ان کے علاقو ںمیں ترقیاتی کاموں کی انجام دہی شامل ہے۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی نے ریاست کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے تحفظات کا اعلان کیا تھا لیکن 9 سال گذرنے کے باوجود اس پر عمل آوری نہیں کی گئی حالانکہ حکومت کی جانب سے اعلامیہ جاری کرکے تحفظات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح ٹی آر ایس نے مسلمانوں کیلئے بجٹ میں سب پلان کا اعلان کیا تھا لیکن اس میں بھی متعدد بار دریافت کرنے کے باوجود کوئی پیشرفت عمل میں نہیں لائی گئی اور اب ٹی آر ایس قائدین سے بات کئے جانے پر وہ مسلمانوں اور ان کی تنظیمو ںکو بی جے پی کی سرگرمیوں کو اپنی مجبوری بتا رہے ہیں حالانکہ حکومت کی جانب سے جو اعلانات کئے گئے تھے ان پر عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی طاقت ابھی بی جے پی میں نہیں ہے لیکن اگر بی جے پی مزید مستحکم ہوجاتی ہے تو مسلمانوں کے مسائل اور ترقی کے اقدامات میں رکاوٹ کا خدشہ پیدا ہوجائیگا ۔ اسی لئے مسلم تنظیموں اور جماعتوں ںکو بی جے پی کے فروغ کو روکنے فرقہ وارانہ ماحول کو متاثر ہونے سے روکنے کے علاوہ ووٹوں کی تقسیم کی سازش کو ناکام بنانے کی تیاری کرنی چاہئے ۔ م