کس لئے مذہب کے جھگڑوں میں سدا اُلجھتے رہیں
سیکھ جائیں یہ اگر سب بھائی چارہ کا چلن
ہماری ریاست تلنگانہ میں مسلم تحفظات کا مسئلہ لیت و لعل کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ حالانکہ کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت والی تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے 2014 سے قبل وعدہ کیا تھا کہ ان کی پارٹی کو اقتدار ملتا ہے تو ابتدائی چار مہینوں کے اندر ہی مسلم تحفظات کی حد کو 12 فیصد کردیا جائیگا اور مسلمانوں سے کئی دہوں سے آندھرا پردیش میںجو ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں ان کو ختم کیا جائیگا ۔ اسی وعدے کے تحت کے چندر شیکھر راؤ نے ریاست میںمسلمانوں کی تائید اور ان کے ووٹ سے اقتدار حاصل کیا ۔ تاہم اقتدار حاصل کرتے ہی کے سی آر اس وعدہ کو فراموش کر بیٹھے اور اب تو وہ ان تحفظات کا ذکر تک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ابتداء میں گورنر کے خطبہ میں اس کا تذکرہ کیا جاتا تھا تاہم اب وہ بھی ختم کردیا گیا ہے ۔ بتدریج گورنر کے خطبہ کو بھی ختم کیا جا رہا ہے ۔ یہاںسوال مسلم تحفظات کا ہے ۔ ریاست میںچار فیصد مسلم تحفظات کانگریس کی وائی ایس راج شیکھر ریڈی حکومت کی دین ہے ۔ ان چار فیصد مسلم تحفظات سے ریاست کے مسلمان استفادہ کرتے آئے ہیں۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ حکومت کے متعصب عہدیداروں کو یہ چار فیصد تحفظات بھی برداشت نہیں ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے روسٹر سسٹم میں تبدیلی کردی جس کے بعد اب ریاست میں تحفظات کی شرح صرف تین فیصد تک محدود ہوگئی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کا وعدہ چار فیصد مسلم تحفظات کو بڑھا کر 12 فیصد کرنے کا تھا لیکن پہلے سے موجود چار فیصد کو ہی گھٹا کر تین فیصد کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے اس سے انکار کیا جا رہا ہے اور وزیر داخلہ محمود علی کا کہنا ہے کہ روسٹر سسٹم میں جو تبدیلی کی گئی ہے اس کی تحقیقات کی جائیں گی ۔ ریاستی حکومت کے وعدے اورا س کے تیقنات سے ریاست کے عوام اور خاص طور پر مسلمان اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ اصل اعلان کو آٹھ برس کا عرصہ گذر چکا ہے جبکہ وعدہ صرف چار ماہ تھا ۔ اسے ابھی تک پورا نہیں کیا گیا ہے ۔ روسٹر سسٹم میں تبدیلی کی تحقیقات کا عمل بھی شائد اسی طرح برفدان کی نذر ہوجائیگا اور جو متعصب عہدیدار اس سسٹم میں تبدیلی کے ذمہ دار ہیں وہ اپنے پوشیدہ عزائم میں کامیاب ہوجائیں گے اور مسلمانوں کو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
حالانکہ ریاست میں اقلیتوں کے ساتھ مسلسل نا انصافی کی جا رہی ہے اور انہیں صرف سبز باغ دکھاتے ہوئے کام چلایا جا رہا ہے ۔ اقلیتی بہبود کا بجٹ تک پورا جاری نہیں کیا جا رہا ہے ۔ پہلے ہی یہ بجٹ بہت کم ہے ۔ اسے بھی پورا جاری نہیں کیا جاتا ۔ جو بجٹ جاری بھی کیا جاتا ہے اس کو مکمل خرچ بھی نہیں کیا جاتا ۔ جو بجٹ بچ جاتا ہے اسے واپس کردیا جاتا ہے ۔ آئندہ سال کے بجٹ میں شامل نہیں کیا جاتا ۔ یہ الگ مسائل ہیں۔ تحفظات ایک بنیادی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے ۔ اس کے ذریعہ وقتی فائدہ کی بجائے بنیادی نوعیت کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ تعلیمی اور روزگار کے شعبہ میں مسلمانوں کو طمانیت حاصل ہوسکتی ہے ۔ ریاست میںمسلمانوںکی جو انتہائی ابترتعلیمی و سماجی اور معاشی صورتحال ہوگی ہے اس کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ مسلم طلبا و طالبات اب تعلیم کے میدان میں محنت و مشقت کرنے لگے ہیں۔ وہ مسابقتی امتحانات میں بھی اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہونے لگے ہیں۔ ایسے میںاگر انہیں تحفظات کے ثمرات ملتے ہیں اور طمانیت حاصل ہوتی ہے تو ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ تحفظات کے نام پر سیاست کرتے ہوئے عوامی تائید حاصل کرکے حکومت اس کو فراموش کر بیٹھی ہے ۔ کے سی آر نے کہا تھا کہ وہ اپنے وعدوں کے پکے ہیںلیکن وہ اس وعدہ کو یکسر فراموش کرچکے ہیں یا پھر وہ بھی اس وعدہ کو پورا کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ اس مسئلہ پر چیف منسٹر کے علاوہ دوسرے ذمہ دار وزراء بھی جواب دینے تیار نہیںہیں۔
جہاں تک روسٹر سسٹم میں تبدیلی کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ انتہائی سنگین ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں سے شدید ناانصافی ہوئی ہے ۔ انہیں پہلے ہی ان کے جائز حقوق اور مقام نہیں دیا جا رہا ہے ۔ انہیں ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ کچھ اپنوں کی غفلت و لا پرواہی اور کچھ عہدیداروں کا تغافل مسلم طبقہ کے مسائل کی وجہ بنا ہوا ہے ۔ حکومت کو اس معاملہ میں صرف بیان بازی سے کام لینے سے گریز کرنا چاہئے ۔ روسٹر سسٹم میں جو تبدیلی کردی گئی ہے اس کو فوری درست کیا جانا چاہئے تاکہ مسلمانوں کا مزید نقصان نہ ہونے پائے اور جو عہدیدار ایسا کرنے کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف انکوائری کرواتے ہوئے کارروائی کی جانی چاہئے تاکہ دوسرے ایسی جراء ت نہ کرپائیں۔
گجرات کی انتخابی مہم
گجرات میں اسمبلی انتخابات کی مہم شدت کو پہونچ چکی ہے اور اختتامی مرحلہ میں ہے ۔ یہاںبی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے کوشاں ہے تو کانگریس یہاں اقتدار پر دو دہوں سے زائد وقت کے بعد واپسی کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس مہم کو تاہم بی جے پی کی جانب سے فرقہ وارانہ کھیل میں بدل دیا گیا ہے ۔ امیدواروں کا انتخاب جو کیا گیا ہے ان میں فسادات ملزمین یا ان کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 2002 کے گجرات فسادات کو سبق سکھانے کا نام دیتے ہوئے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بلقیس بانو کیس کے مجرمین کو رہا کردیا گیا ہے ۔ یہ سارا کچھ انتخابی فائدہ اٹھانے کیلئے کیا جا رہا ہے اور اصل مسائل کو کہیں پس منظر میں ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ یہ در اصل جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کی کوشش ہے اور گجرات کے عوام کو اس کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور اپنے ووٹ کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اختلافی اور نزاعی مسائل سے مسائل کا حل نہیں ہوسکتا اورنہ عوام کو راحت مل سکتی ہے ۔ ایسے امیدواروں اور جماعتوں کے انتخاب کو ترجیح دی جانی چاہئے جو نزاعی و اختلافی مسائل کی بجائے عوامی مسائل کی یکسوئی پر توجہ دے سکیں تاکہ عوام کو راحت مل سکے ۔