تلنگانہ میں کانگریس کو دوبارہ اقتدار کے آثار ؟

,

   

چار متحدہ اضلاع میں ٹی آر ایس کو ایک بھی نشست ملنے کا امکان نہیں
انتخابی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور کے سروے میں چونکا دینے والے انکشافات

حیدرآباد14 جون (سیاست نیوز) تلنگانہ میں آئندہ حکومت کانگریس کی ہوگی ! برسر اقتدار جماعت کی پالیسیاں عوامی مخالفت اور مرکزی حکومت سے بدظن تلنگانہ عوام کا موقف کانگریس کے حق میں دکھائی دے رہا ہے اور موجودہ حالات کے مطابق کانگریس کا اقتدار میں واپس آنا ممکن ہوسکتا ہے ۔ اس بات کا انکشاف پرشانت کشور کی تازہ رپورٹ میں کیا گیا ۔ حالانکہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کیلئے سرگرم پرشانت کشور کی ٹیم نے ایک سے زائد مرتبہ سروے کیا اور اپنی رپورٹ میں ٹی آر ایس کی موجودہ حالت پر روشنی ڈالی خود پی کے کی رپورٹ میں ٹی آر ایس کو تیسرا مقام ملنے کا اندازہ ظاہر کیا گیا ۔ پی کے کی رپورٹ ٹی آر ایس کیلئے تیار کی گئی لیکن اس میں چونکا دینے والے انکشافات ہوئے ہیں۔ ٹی آر ایس کی موجودہ حالت و عوامی موقف معلوم کرنے پرشانت کشور ٹیم نے ایک رپورٹ تیار کرکے ٹی آر ایس صدر کے حوالے کردی جس میں کچھ مشورے بھی دیئے ہیں جن میں انتخابی مفاہمت کو اہمیت دی گئی اور تنہا مقابلہ نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ تلنگانہ کے متحدہ اضلاع محبوب نگر ، نلگنڈہ اور کھمم میں پارٹی کے موقف کو انتہائی خراب قرار دیا اور ان سے صفر نتائج کی پیش قیاسی کی گئی ہے جبکہ ٹی آر ایس کا گڑھ قرار دئے جانے والے ضلع رنگا ریڈی میں بھی ٹی آر ایس موقف کو کمزور پتہ چلا ہے ۔ یہاں بھی صفر نتائج کی پیش قیاسی کی گئی ۔تلنگانہ میں ایک عرصہ سے سرگرم پرشانت کشور ٹیم نے تقریباً ہر ضلع کا احاطہ کیا ہے ۔ تلنگانہ کے تقریباً 65 حلقوں میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان راست مقابلہ ہے اور ان میں ٹی آر ایس تیسرے مقام پر ہوسکتی ہے ۔ رپورٹ کے اس پہلو سے ٹی آر ایس کا اقتدار میں واپس آنا غیر یقینی ہوجاتا ہے ۔ پرشانت کشور نے رپورٹ میں بتایا کہ ٹی آر ایس کابینہ کے 11 وزراء کی کامیابی غیر یقینی ہے کیونکہ ان کے حلقوں میں نہ خود وزراء کا اور نہ ہی پارٹی کا موقف مستحکم ہے پرشانت کشور نے ٹی آر ایس قیادت پر واضح کردیا کہ ان حلقوں میں امیدواروںکی تبدیلی سے بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ پرشانت کشور ٹیم کی یہ 7 ویں سروے رپورٹ ہے اور ڈسمبر 2021 سے پی کے ٹیم مسلسل سروے کر رہی ہے ۔ رپورٹ کے بعد ٹی آر ایس حکومت کی الجھنوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ٹی آر ایس پر عوامی اعتماد مسلسل کم ہو رہا ہے ان حالات میں پی کے نے ٹی آر ایس صدر کو انتخابات سے قبل اہم اقدامات کا مشورہ دیا اور انتخابی مفاہمت کی سفارش کی ہے ۔ پی کے کی ٹیم نے بائیں بازو سے انتخابی مفاہمت کا مشورہ دیا اور ان جماعتوں کے ساتھ متحدہ لائحہ عمل جلد طئے کرنے پر زور دیا۔ جن 4 متحدہ اضلاع میں پارٹی کے صفر موقف کا انکشاف کیا گیا ، ان میں بائیں بازو کا ہمیشہ اثر رہا ہے ۔ ر پورٹ میں صرف ٹی آر ایس کے موقف ہی کو بیان کیا گیا ۔ تاہم رپورٹ کا راست فائدہ کانگریس کو ہوسکتا ہے ۔ ملک و ریاست کے حالات کے مطابق کسی بھی جماعت کو اقتدار دلانے کی طاقت رکھنے والے مسلمان اور دلت اب کانگریس کے قریب ہو رہے ہیں ۔ ان دو طبقات کا متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں موقف کانگریس کے دوبارہ عروج کا سبب بن سکتا ہے ۔ ٹی آر ایس سے بڑی حد تک نظر انداز مسلمان اور دلتوں کا سیاسی رجحان سیاست کی صورت بدل کر رکھ دے گا ۔ جہاں تک با اثر ریڈی طبقہ کا سوال ہے اس تعلق سے بھی کہا جارہا ہے کہ ریڈی طبقہ متحد ہوچکا ہے اور خاموش لہر کے تحت کانگریس کی تائید کریگا ۔ بی سی طبقہ کی بات کی جائے تو ان کی اکثریت جو مختلف زمروں میں ہے ۔ بی جے پی کے حق میں ہے جبکہ بی سی طبقہ کا باقی حصہ ٹی آر ایس و کانگریس کا حامی ہوگا ۔ ریاست میں اقتدار کی دعویدار بی جے پی کا موقف کمزور ہے۔ مرکز کی عوام مخالف پالیسیاں اور کارپوریٹ اقدامات ‘ بڑھتی مہنگائی اور بلند بانگ دعوؤں کے علاوہ ریاستی یونٹ میں اختلافات بی جے پی کی کمزوری کی وجہ ہیں۔ صرف شہری علاقوں میں فرقہ پرست موقف سے مقبول بی جے پی کو دیہی علاقوں میں عوامی ہمدردی ملنی مشکل ہے ۔ داخلی اختلافات اور رسہ کشی بی جے پی کی کشتی کو کنارے لگنے نہیں دے گی اور ٹی آر ایس کی پالیساں عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام ہورہی ہیں ۔ عوام کا اعتماد پانے میں حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرکے کانگریس عوام کا بھروسہ جیتنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔ آپسی اختلافات کیلئے سرخیوں میں رہنے والی کانگریس نے آپسی اختلافات کو فراموش کرکے عوام کا بھروسہ جیت رہی ہے جس سے پارٹی کو مستحکم موقف حاصل ہورہا ہے۔ ع