اقلیتی اداروں میں فنڈز کے بیجا استعمال کی شکایت عام، مسلم عہدیداروں کو اقلیتی اداروں سے دلچسپی نہیں
حیدرآباد۔/10 جنوری، ( سیاست نیوز)حکومت نے اقلیتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے سینئر اور متحرک عہدیداروں کو فائز کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اقلیتی اقامتی اسکول سوسائٹی کے سکریٹری کی تبدیلی کے ذریعہ ادارہ میں گذشتہ 9 برسوں کے دوران انجام دی گئی سرگرمیوں کی جانچ کا فیصلہ کیا گیا۔ ریونت ریڈی حکومت اقلیتی اداروں میں گذشتہ 9 برسوں کے دوران مبینہ طور پر کرپشن اور بجٹ کے بیجا استعمال کے واقعات کا سختی سے نوٹ لیا ہے۔ حکومت کے اگلے نشانہ پر وقف بورڈ ہے جہاں مستقل چیف ایگزیکیٹو آفیسر کے تقرر کا معاملہ آخری مراحل میں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے چیف ایگزیکیٹو آفیسر کے عہدہ کیلئے پولیس کے کئی سینئر مسلم عہدیداروں کے علاوہ سرکاری محکمہ جات میں ڈپٹی سکریٹری رینک رکھنے والے عہدیداروں سے ربط قائم کیا ہے۔ محکمہ پولیس کا کوئی بھی مسلم عہدیدار وقف بورڈ میں خدمات انجام دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مسلم آئی اے ایس عہدیداروں کے علاوہ ڈپٹی سکریٹری رینک کے حامل مسلم عہدیداروں نے بھی وقف بورڈ میں خدمات انجام دینے میں عدم دلچسپی ظاہر کی۔ عہدیداروں کا عام تاثر یہ ہے کہ وقف بورڈ میں صورتحال کو بہتر بنانا آسان نہیں کیونکہ ہر سطح پر بدعنوان افراد نے اپنا تسلط جمالیا ہے جس کے نتیجہ میں کسی بھی دیانتدار عہدیدار کو طویل عرصہ تک خدمات انجام دینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ عہدیداروں کا یہ تاثر ہے کہ وقف بورڈ میں خدمات انجام دینے کے بعد کوئی بھی شخص الزامات کے بغیر باہر نہیں نکل سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیول اور پولیس کے تمام مسلم عہدیداروں نے عدم دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے معذرت خواہی کرلی۔ موجودہ انچارج چیف ایگزیکیٹو آفیسر کے تقرر کا معاملہ ہائی کورٹ میں زیر دوران ہے اور حکومت کی تبدیلی کے بعد موجودہ عہدیدار کے بارے میں انٹلیجنس نے حکومت کو جو رپورٹ پیش کی ہے اس کی بنیاد پر فوری مستقل چیف ایگزیکیٹو آفیسر کے تقرر کا فیصلہ کیا گیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق عنقریب وقف بورڈ کے مستقل چیف ایگزیکیٹو آفیسر کا تقرر عمل میں لایا جائے گا جس کیلئے حکومت نے ایک سینئر عہدیدار کے نام پر اتفاق کیا ہے۔ وقف بورڈ میں فوری طور پر تبدیلی کے بعد اقلیتی فینانس کارپوریشن، اردو اکیڈیمی اور حج کمیٹی پر تقررات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اقلیتی اداروں میں اسکیمات کے نام پر فنڈز کے بیجا استعمال کی شکایات عام ہیں جس نے حکومت کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔1