ملک کی سب سے کم عمر ریاست تلنگانہ پر قرض کا بے تحاشہ بوجھ عائد کردیا گیا ہے ۔ ریاست میں تشکیل پائی ریونت ریڈی کی زیر قیادت کانگریس حکومت نے آج اسمبلی میں ریاست کے مالیاتی موقف پر وائیٹ پیپر جاری کیا ۔ اہمیت کی بات یہ رہی کہ یہ وائیٹ پیپر سمبلی میں جاری کیا گیا تاکہ اس کا ریکارڈ رہے اور اس تعلق سے سابقہ بی آرایس حکومت کو گھیرا جاسکے ۔ قرض کے تعلق سے حکومت کی تشکیل کے دن ہی سے اطلاعات اور افواہیں گشت کر رہی تھیں۔ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ ریاستی حکومت کیلئے اپنے کام کاج کو آگے بڑھانا اور خاص طور پر جن ضمانتوں کا اعلان کیا گیا ہے اور جو انتخابی وعدے کئے گئے ہیںان کی تکمیل کرنا آسان نہیں رہے گا ۔ سابقہ بی آر ایس حکومت کے آخری ایام میں بھی حکومت کے کام کاج چلانے کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ سابقہ حکومت نے معاشی صورتحال کی حقیقت کو ریاست کے عوام اور سبھی گوشوںسے پوشیدہ رکھا تھا ۔ محض یہ دعوے کئے جا رہے تھے کہ مالی موقف مستحکم ہے ۔ چند پراجیکٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ترقیاتی کاموں کے دعوے کئے جا رہے تھے ۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ریاست میں مسلسل برقی سربراہی ایک کارنامہ ہے جو کے سی آر حکومت نے انجام دیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ ریاست کی برقی صورتحال کے معاملے میں بہتری آئی ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ریاست تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی جب اس کی تشکیل عمل میں لائی گئی ۔ جب ریاست کی تشکیل عمل میں لائی گئی ریاست پر محض 67 ہزار کروڑ روپئے کے قرض کا بوجھ تھا جو اب تقریبا دس برس کے عرصہ میں دس گنا اضافہ کے ساتھ 6 لاکھ 70 ہزار کروڑ تک پہونچ گیا ہے ۔ جب کانگریس نے اقتدار سنبھالا تو اسے سرکاری خزانوں کے خالی ہونے کا پتہ چلا اور اس نے خود پر کوئی الزام سہنے کی بجائے ساری حقیقت ریاست کے عوام کے سامنے آج اسمبلی میں وائیٹ پیپر جاری کرتے ہوئے پیش کردی ہے ۔ یہ بوجھ ریاست کے ہر شہری پر عائد ہوگیا ہے جبکہ کے سی آر حکومت اس تعلق سے جھوٹے اور بے بنیاد دعوے کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف رہی تھی ۔ جس وقت تلنگانہ ریاست کی تشکیل عمل میں لائی گئی تھی اس وقت سے ابتدائی پانچ برسوںمیں خود کے سی آر حکومت اور اس کے نمائندوں کی جانب سے بارہا یہ دعوے کئے جا رہے تھے کہ ریاست میں فاضل بجٹ ہے ۔ فاضـل رقومات موجود ہیں۔ ہر محکمہ کے پاس فنڈز دستیاب ہیں۔ اس کے باوجود صرف پانچ سال کے عرصہ میں چھ لاکھ کروڑ روپئے تک کے قرض کا بوجھ عائد کردینا ناقابل فہم کہا جاسکتا ہے ۔ کچھ پراجیکٹس ضرور تعمیر کئے گئے ہیںاس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ریاست کی آمدنی اور قرض کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے ترقیاتی کام کئے جاسکتے تھے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اس طرح سے کام کیا جاتا ہے اور اب بھی جاری ہے ۔ تاہم محض قرض کا بوجھ عائد کرتے ہوئے خود اقتدار کے مزے لوٹنا درست نہیں ہوسکتا اور یہی کام کے سی آر حکومت نے کیا ہے ۔ ریاست کے عوام کو معیشت کی حقیقی صورتحال سے واقف نہیںکروایا گیا ۔ یہ دعوے مسلسل کئے جاتے رہے کہ ریاست میں سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں نے ریاست میں سرمایہ کاری کی ہے ۔ اس کے باوجود اگر قرض کے بوجھ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے تو ایسے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے جواب بی آر ایس کو دینے کی ضرورت ہے ۔ ریاست کے عوام کو حقائق سے واقف کروانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور خاص طور پر جس جماعت نے ریاست میں دو معیادوں کیلئے حکومت کی ہے اس کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے ۔ کئی بڑے پراجیکٹس میں بے قاعدگیوں اور بد عنوانیوں کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ سابقہ بی آر ایس حکومت نے ان تمام الزامات کی ہمیشہ ہی تردید کی ہے ۔ کئی پراجیکٹس ایسے ہیں جو اپنی اصل تخمینی لاگت سے زیادہ رقومات سے تعمیر کئے گئے ہیں۔ ان کی بھی بی آر ایس کو وضاحت کرنے کی ضـرورت ہے ۔ اب جبکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ریاست پر قرض کا بے تحاشہ بوجھ عائد کردیا گیا ہے تو ایسے میںنئی حکومت کو سنبھلنے کیلئے وقت درکار ہوگا ۔ ریاست کے عوام کو بھی حقیقی صورتحال کو سمجھنے اور جہاں کہیں موقع ملے بی آر ایس کے نمائندوں اور اس کے قائدین سے اس تعلق سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہے ۔