ملک کی بیشتر ریاستوں کی طرح تلنگانہ کانگریس میں بھی اختلافات اور انتشار کی کیفیت شدت اختیار کرگئی ہے ۔ کئی ریاستوں میں کانگریس کو داخلی خلفشار اور انتشار کی صورتحال کا سامنا ہے جس کی وجہ سے پارٹی کو انتخابات میںمسلسل شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پارٹی کی کارکردگی میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ اسے شکست کے بعد شکست ہوتی جا رہی ہے اور جہاں کہیں اسے کچھ کامیابی مل رہی ہے اسے بھی پارٹی سنبھالنے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ ہر بار کے انتخابات میں پارٹی کو گذشتہ سے کم ووٹ اور کم نشستیں حاصل ہو رہی ہیں۔ اس کیلئے پارٹی کی جانب سے مختلف عوامل کو وجہ قرار دیا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ عوامل بھی کانگریس کی شکست کی وجوہات میں شامل رہے ہوں لیکن اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ کانگریس کی شکستوں کیلئے اس کے داخلی اختلافات اور خلفشار کی صورتحال سب سے زیادہ ذمہ دار ہے ۔ بیرونی عوامل پر شکست کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے کانگریس پارٹی یا اس کے قائدین خود کو بری الذمہ نہیں کرسکتے ۔ قومی سطح پر پارٹی صدارت کے مسئلہ پر پارٹی میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا ۔ اشوک گہلوٹ نے چیف منسٹر راجستھان کا عہدہ چھوڑنے سے گریز کرتے ہوئے پارٹی صدارت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ملکارجن کھرگے کو لمحہ آخر میں میدان میں پیش کرتے ہوئے انہیں پارٹی صدر بنادیا گیا ۔ اب ملک کی مختلف ریاستوں میں پارٹی کیلئے مسائل پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماچل پردیش میں کانگریس نے اقتدار حاصل کیا ہے وہاں بھی چیف منسٹر کے انتخاب سے قبل ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ کسی طرح صورتحال کو بگڑنے سے بچالیا گیا ۔ اب تلنگانہ میں پارٹی یونٹ اختلافات کا شکار ہوتی جارہی ہے ۔ سینئر قائدین میںاختلافات بڑھتے جا رہے ہیںاور ایک گروپ نے تو ریاستی صدر ریونت ریڈی کے خلاف عملا بغاوت کردی ہے ۔ وہ پارٹی سرگرمیوں سے خود کو دور کر رہے ہیں اور انہوں نے ریونت ریڈی کے کام کاج کے طریقہ کار کے خلاف قومی قیادت سے شکایت درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ صورتحال کمزور کانگریس کیلئے اور بھی پیچیدہ ہورہی ہے ۔
تلنگانہ میں کانگریس پارٹی سیاسی اعتبار سے اب بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ خود ٹی آر ایس کی جانب سے جو سروے کروایا گیا تھا اس کے مطابق ریاست میں ٹی آر ایس کے بعد کانگریس ہی عوام کی دوسری ترجیح ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی حالانکہ سیاسی شور شرابہ کرنے سے گریز نہیںکر رہی ہے لیکن وہ اب بھی بہت پیچھے ہی ہے ۔ صرف تشہیر یا ڈرامہ بازیوں کے ذریعہ پارٹی عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ ضمنی انتخابات میں ضرور بی جے پی نے دو حلقوں سے کامیابی حاصل کی ہے لیکن ایک حلقہ میں ایٹالہ راجندر کی وجہ سے کامیابی ملی تھی ۔ جہاں تک پوری ریاست میں انتخابات کی بات ہے تو اس صورتحال میں کانگریس پارٹی اپنی کارکردگی کو کچھ بہتر ضرور بناسکتی ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ سینئر قائدین میں اتحاد پیدا ہوجائے ۔ تمام قائدین ایک رائے ہوجائیں۔ پہلے ہی سے پارٹی کی صفوں میں بے چینی کی کیفیت ہے ۔ پارٹی کے رکن اسمبلی راجگوپال ریڈی مستعفی ہوکر بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کے وینکٹ ریڈی کے تیور بھی پارٹی کے حق میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ایسے میں دوسرے قائدین کے رویوں میں بھی تبدیلی پیدا ہونے لگی ہے جو پارٹی کے حق میںہرگز نہیں ہوسکتی۔ ریاست کی جو سیاسی صورتحال ہے اس کو دیکھتے ہوئے خود پارٹی قائدین میں اتحاد کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے تھا تاہم یہاں بھی اختلافات میں شدت ہو رہی ہے اور اس کا پارٹی کو خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے ۔
کانگریس کی مرکزی قیادت ہو کہ ریاستی قیادت ہو سبھی کو اس مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے اب بھی ایک سال کا وقت باقی ہے ۔ اس ایک سال میں پارٹی کی صفوں میں اتحاد اور پھر متحدہ طور پر تمام قائدین کو عوام کے درمیان پہونچانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پارٹی اپنے موقف میں استحکام پیدا کرسکتی ہے ۔ اگر یہ اختلافات ختم نہ ہوں اور خلفشار کاسلسلہ جاری رہے تو اس سے پارٹی کو نقصان ہی ہوگا اور بی جے پی کو کسی بھی موقع کو گنوانے کیلئے تیار نہیں ہے اس کا فائدہ اٹھانے سرگرم ہوسکتی ہے اور اس وقت کانگریس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔