تلنگانہ کا گرم ہوتا ہوا سیاسی ماحول

   

کیا بھیانک آج تیرے خواب کی تعبیر ہے
ہر طرف انسانیت کی خونچکاں تصویر ہے
ویسے تو ملک کی پانچ ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں سیاسی ماحول مسلسل گرم ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر ریاست میں اپنے اپنے حالات کے مطابق وہاں کی جماعتیں تیاری کرچکی ہیںا ور عوام سے رجوع ہونا بھی شروع کردیا ہے ۔ عوام سے مختلف وعدے کئے جا رہے ہیں اور ان کی تائید حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ ابھی ان ریاستوں کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم سیاسی جماعتیں اپنی تیاریاں اور سرگرمیاں ابھی سے شروع کرچکی ہیں۔ ان میں اب بتدریج شدت بھی پیدا ہونے لگی ہے ۔ تاہم جہاں تک تلنگانہ ریاست کی بات ہے تو یہاں صورتحال زیادہ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ سیاسی ماحول میں مسلسل تیزی آنے لگی ہے اور ریاست میں انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کرنے والی تمام جماعتیں سرگرم ہوچکی ہیں۔ ساتھ ہی دوسروں کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے اور الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ ہر جماعت زیادہ سے زیادہ عوامی تائید حاصل کرنے کی جدوجہد اور تگ و دو کرنے لگی ہے ۔ ریاست میں دلچسپ سیاسی منظر نامہ تیار ہونے لگا ہے ۔ بی آر ایس لگاتار تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ اس کیلئے ہر ممکن کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ کانگریس ریاست میں دو معیادوں کے بعد اقتدار پر واپسی کی حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہے تو اقتدار کی دعویداری کرنے والی بی جے پی کہیں پس منظر میں چلی گئی ہے ۔ وہ سیاسی منظر نامہ پر دوبارہ ابھرنے کی جدوجہد بھی کر رہی ہے تاہم اس میں اسے کہیں سے کامیابی ملتی نظر نہیں آر ہی ہے ۔ مجلس اتحاد المسلمین اپنے حلقوں میں مستحکم ہے اور وہ اپنے میدان کو مستحکم رکھنے کیلئے سرگرمیوں کا آغاز کرچکی ہے ۔ جہاں تک ساری ریاست کی صورتحال کی بات ہے تو اب راست مقابلہ کانگریس اور بی آر ایس میں ہوچکا ہے اور دونوں ہی جماعتیں مسلمانوں کے ووٹوں کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوگئی ہیں۔ کانگریس مختلف اعلانات کرتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کی تائید حاصل کرنا چاہتی ہے اور مسلمانوں کیلئے بھی خاص حکمت عملی بنائی جا رہی ہے ۔ بی آر ایس اس معاملے میں مجلس پر اکتفاء کر رہی ہے کیونکہ بی آر ایس کی ساکھ مسلمانوں میں پہلے جیسی نہیں رہ گئی ہے ۔
کانگریس میں دوسری جماعتوں کے قائدین کی شمولیت کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ بی آر ایس ہو یا بی جے پی ہو کے قائدین کانگریس میں مسلسل شامل ہو رہے ہیں اور دعوی کیا جا رہا ہے کہ مزید کئی قائدین آئندہ دنوں میں کانگریس کا دامن تھام سکتے ہیں۔ بی آرایس اپنی صفوں کو مستحکم رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ اس کے ناراض قائدین کو منانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ دس برس میں پہلی مرتبہ پارٹی کو اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اپنے قائدین اور کارکنوں کی ناراضگی کا احساس ہونے لگا ہے ۔ ایسا محض اس لئے ہے کیونکہ گذشتہ دو معیادوں میں چیف منسٹر نے خودا پنی پارٹی کے قائدین اور ارکان اسمبلی تک کو اہمیت دینے سے انکار کردیا تھا ۔ کئی کئی مہینے ارکان اسمبلی بھی چیف منسٹر سے ملاقات نہیں کرپاتے تھے ۔ صرف چنندہ حاشیہ برداروں کو شرف بازیابی بخشا جاتا تھا ۔ عوام میں بھی چیف منسٹر محض کسی مخصوص موقع پر ہی درشن دیا کرتے تھے ۔ یہ ایسی صورتحال تھی جو سیاسی موقف کو مستحکم کرنے کیلئے سازگار نہیں کہی جاسکتی ۔ آج اس کے نتائج کا بی آر ایس اور چیف منسٹر کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کو مسلسل فراموش کرنے کی وجہ سے بھی عوام میں ناراضگی ہے ۔ خاص طور پر مسلمان بی آر ایس حکومت سے بہت زیادہ ناراض ہیں ۔ ان سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا ۔ ان کے ساتھ تلنگانہ میں وہ سلوک روا رکھا گیا جو بی جے پی اپنی ریاستو ں میں رکھا کرتی ہے ۔
بحیثیت مجموعی عوام میں حکومت کے تعلق سے جو ناراضگی کی لہر ہے اس نے حالات کو بگاڑ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی آر ایس کو مسلسل جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے قائدین انحراف کرنے لگے ہیں۔ کانگریس نے صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے جو منصوبہ بند طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ اس کیلئے نفع بخش ثابت ہونے لگا ہے ۔ کم از کم انتخابی شیڈول جاری ہونے سے پہلے کا ماحول تو کانگریس کے حق میں ہی دکھائی دیتا ہے ۔ بی جے پی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عوامی توجہ حاصل نہیں کرپا رہی ہے اور ایسے میں وہ تلنگانہ میں بھی کٹر ہندوتوا کی پالیسی کو اختیار کرسکتی ہے تاہم یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ پالیسی تلنگانہ میں پارٹی کیلئے کارکرد ثابت نہیں ہوگی ۔ ریاست کے عوام ایک دلچسپ صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ان کی رائے کا پولنگ کے ذریعہ اظہار کریں گے ۔
بدھوری کو انتخابی ذمہ داری
جمہوریت میں سب سے اہمیت کے حامل ادارہ پارلیمنٹ میں انتہائی نازیبا اور اچھی و بیہودہ ترین زبان استعمال کرنے والے بی جے پی رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری کے تعلق سے بالآخر بی جے پی حرکت میں آئی ہے ۔ کچھ گوشوں کو شائد یہ امید رہی ہوگی کہ پارلیمنٹ جیسے ادارہ میں انتہائی گھٹیا اور بیہودہ و شرمناک رویہ اختیار کرنے والے بدھوری کی کم از کم زبانی سرزنش تو ضرور کی جائے گی اگر کوئی کارروائی نہ بھی کی جائے ۔ تاہم بی جے پی نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں بھی تمغہ سے نواز دیا ہے ۔ بی جے پی کی یہ روایت رہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے اور ان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ انہیں تہنیت پیش کی جاتی ہے ۔ ان کی گلپوشی اور شال پوشی کی جاتی ہے ۔ ماضی میںاس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہجومی تشدد میں بے گناہ اور بے یار و مددگار مسلمانوں کا قتل کردینے والوں کی گلپوشی کی گئی اور جیل کے باہر ان کاا ستقبال کیا گیا تھا ۔ اب بھی رمیش بدھوری کو پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرنے کے ’ کارنامہ ‘ کے عوض انہیں راجستھان میں ایک حلقہ کا الیکشن انچارج بنادیا ہے ۔ یہ بی جے پی کی ڈوغلی پالیسی ہے ۔ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دینے والی بی جے پی مسلمانوں کے تعلق سے اپنی گھٹیا سوچ کا بارہا اظہار کرتی رہی ہے ۔ اب رمیش بدھوری کو راجستھان میں الیکشن انچارج بناتے ہوئے بھی پارٹی ایک طرح سے ان کی گھٹیا زبان اور مجرمانہ لب و لہجہ کی تائید و حمایت کی ہے اور ان کو تمغہ سے نواز دیا ہے ۔ سیاسی فائدہ کیلئے اور ایک مخصوص طبقہ کے ووٹوں کو راغب کرنے کیلئے یہ پالیسی اختیار کی جا رہی ہے جو انتہائی منفی اور سطحی سوچ کی عکاس ہے ۔