تشکیل کو تین ہفتے مکمل، دو سال کے وقفہ کے بعد صدرنشین اور تین ارکان کا تقرر
(پولیس اذیت سے قدیر خاں کی ہلاکت اور مسلم تحفظات میں کمی جیسے اہم مسائل)
حیدرآباد۔27۔مارچ (سیاست نیوز) اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ناانصافیوں کی صورت میں انصاف دلانے میں اقلیتی کمیشن کا اہم رول ہوتا ہے ۔ اقلیتی کمیشن دستوری ادارہ ہے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ تلنگانہ میں دو سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے اقلیتی کمیشن کی تشکیل کا انتظار ہے۔ کے سی آر حکومت نے دو سال کے وقفہ کے بعد 3 مارچ کو تلنگانہ اقلیتی کمیشن کے صدرنشین کا تقرر کیا جبکہ 4 مارچ کو کمیشن کے تین ارکان کا تقرر عمل میں لاتے ہوئے کمیشن کی تشکیل کا عمل مکمل کردیا لیکن افسوس کہ تین ہفتے گزرنے کے باوجود کمیشن کے صدرنشین اور ارکان نے جائزہ نہیں لیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے کئی اہم مسائل نمائندگی سے محروم ہیں۔ اقلیتی کمیشن قومی اور ریاستی سطح پر حکومت کو مسلمانوں کے مسائل کے حل اور ناانصافیوں کے سلسلہ میں سفارشات پیش کرتا ہے۔ کمیشن کو اعلیٰ عہدیداروں کو سمن کے ذریعہ طلب کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ کمیشن کے صدرنشین کو سیول کورٹ جج کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اس قدر بااختیار کمیشن کی دو سال سے عدم تشکیل کے نتیجہ میں تلنگانہ کے مسلمان اپنے حقوق کے لئے نمائندگی کرنے سے محروم ہوچکے ہیں۔ 2014 ء میں تشکیل تلنگانہ کے بعد کے سی آر حکومت نے 4 سال تک کمیشن تشکیل نہیں دیا۔ جنوری 2018 ء میں محمد قمرالدین کو صدرنشین مقرر کیا گیا جبکہ ایک نائب صدر اور 6 ارکان کا تقرر کیا گیا ۔ ارکان میں 3 مسلم کے علاوہ عیسائی ، پارسی ، سکھ اور جین طبقات کی نمائندگی بھی تھی۔ تین سالہ میعاد کی تکمیل جنوری 2021 ء میں ہوئی جس کے بعد سے کمیشن خالی ہے۔ گزشتہ کمیشن نے اوپن یونیورسٹی میں اردو ڈگری کورسس کی بحالی میں اہم رول ادا کیا تھا۔ کمیشن کو تین سال میں 447 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 337 کی یکسوئی کی گئی۔ حکومت نے اب طارق انصافی کو 3 مارچ کو کمیشن کا صدرنشین مقرر کیا جبکہ دوسرے دن محمد اطہراللہ ، محمد تنویر اور درشن سنگھ کو بطور ارکان نامزد کیا گیا۔ کمیشن کی تشکیل کو تین ہفتہ گزرنے کے باوجود سیاسی قائدین کے انتظار میں آج تک صدرنشین اور ارکان نے جائزہ نہیں لیا جس سے مسلمانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ تلنگانہ میں کئی اہم مسائل کمیشن کے منتظر ہیں جن میں حال ہی میں میدک میں قدیر خاں نامی نوجوان کی پولیس اذیت سے موت اور مسلم تحفظات پر 4 فیصد کے بجائے 3 فیصد پر عمل آوری شامل ہیں۔ اقلیتی کمیشن قدیر خاں معاملہ میں اور تحفظات کے مسئلہ پر حکومت کے چیف سکریٹری اور ڈائرکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کرسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رکن کونسل کویتا کے انتظار میں صدرنشین اور ارکان نے ابھی تک حلف نہیں لیا۔ر