تلگودیشم کے احیاء کی کوششیں

   


اب جبکہ آئندہ سال تلنگانہ اسمبلی انتخابات اور پھر 2024 میں پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے تلگودیشم پارٹی کو دوبارہ سرگرم کرنے اور دوبارہ عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ خود آندھرا پردیش میں تلگودیشم پارٹی نے اپنی جدوجہد میں تیزی پیدا کردی ہے اور وائی ایس آر کانگریس حکومت کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ تقسیم ریاست کے وقت ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی تلگودیشم پارٹی کو 2019میں ہوئے انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے ریاست میں شاندار کامیابی حاصل کرلی تھی ۔ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی نے در پردہ تلگودیشم کو شکست سے دوچار کرنے میںاہم رول ادا کیا تھا ۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی بالواسطہ تائید کی تھی اور انتخابات میں اسے فنڈز تک فراہم کئے گئے تھے ۔ حالانکہ یہ سب کچھ محض قیاس آرائیاں تھیں اور ان کی کوئی توثیق نہیں ہوئی تھی لیکن جس طرح سے جگن موہن ریڈی نے مرکزی حکومت کی تائید و حمایت کی تھی اور اہم مواقع پر اس کی حمایت سے گریز نہیں کیا تھا یہ تاثر عام ہورہا تھا کہ ان قیاس آرائیوں میں کچھ حد تک سچائی ضرور ہے ۔ اب جبکہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات اور پھر ملک کے عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے تو تلگودیشم کی سیاسی سرگرمیوںمیں تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ صدر تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو پارٹی کو دوبارہ فعال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ آندھرا پردیش میں نائیڈو کے فرزند نارا لوکیش یاترا شروع کرنے والے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو آندھرا پردیش کے ساتھ تلنگانہ پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کھمم ضلع میںریلی منعقد کی ۔ رنگا ریڈی اور حیدرآباد اضلاع میں بھی وہ پارٹی کو متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ تلگودیشم کیلئے نئے صدر کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ بتدریج تلنگانہ میں بھی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کرنے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو آئندہ انتخابات میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں ہی ریاستوں میں پارٹی کے استحکام اور وسعت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
سیاسی حلقوں میںیہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی اور اداکار سے سیاستدان بننے والے پون کلیان کی جنا سینا پارٹی سے چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم کادر پردہ اتحاد ہوچکا ہے ۔ اس کا باضابطہ اعلان انتخابات سے قبل کیا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی تلنگانہ میں اپنے قدم جمانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے ۔ کئی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوامی تائید حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہوچکی ہیں۔ بی جے پی کو یہ احساس بھی ہے کہ وہ تنہا ریاست میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی اور نہ ہی بی آر ایس کی چندر شیکھر راؤ حکومت کو زوال کا شکار کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے چندرا بابو نائیڈو ایک امید کی کرن دکھائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ نائیڈو نے بی جے پی سے کھلے اتحاد کا ابھی تک کوئی اشارہ نہیں دیا ہے ۔ پون کلیان بھی اس تعلق سے واضح بیان دینے سے گریز کر رہے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ بی جے پی تلنگانہ میں اپنے قدم جمانے کیلئے تلگودیشم اور جنا سینا سے اتحاد کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی ۔ آندھرا پردیش میں اگر تلگودیشم سے باضابطہ اتحاد نہ بھی کیا جائے تو تلنگانہ میں ایسا کرنے کی ضرور کوشش کی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ چندرا بابو نائیڈو جو کچھ عرصہ تک تلنگانہ سے عملا بے تعلق ہوگئے تھے دوبارہ سرگرم ہوتے نظر آر ہے ہیں۔ وہ پارٹی کے جلسوں اور عوامی پروگرامس پر توجہ دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کے پروگرامس کو عوامی تائید بھی حاصل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے تلنگانہ کے تعلق سے چندرا نائیڈو کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں۔
تلگودیشم پارٹی کا تلنگانہ میں بھی عوامی حلقوں میں ذکر و چرچا ضرورہے ۔ تاہم انتخابی میدان میں پارٹی کس حد تک عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ بی آر ایس اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کرنے تیار ہے ۔ اگر بی جے پی اور تلگودیشم کا اتحاد ہوتا ہے اور جنا سینا پارٹی بھی اس کا حصہ بننے تیار ہوجاتی ہے تو پھر اس کے اثرات یقینی طور پر انتخابی نتائج پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ تاہم چندرا بابو نائیڈو بی جے پی کی بیساکھی بننے تیار ہوتے ہیں یا نہیں یا پھر وہ خود بی جے پی کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے ۔