تلنگانہ میں بی آر ایس نشانہ ، صدر پی سی سی ریونت ریڈی کو عوامی تائید
حیدرآباد۔22۔مارچ(سیاست نیوز) سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن تلگوریاستوں میں اپنے حریف قائدین کو نشانہ بنانے کی جو حکمت عملی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اختیار کی گئی اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اب یہ سیاسی حریف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور تلگو ریاستوں میں اہم سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے اہم قائدین کو نشانہ بنا رہی ہیں اور انہیں ممکنہ حد تک مسائل میں مبتلاء کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں اہم سیاسی جماعتوں میں بھارت راشٹر سمیتی ‘ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہیں جبکہ آندھراپردیش میں وائی ایس آر سی پی ‘ تلگو دیشم اور جنا سینا پارٹی ہیں ۔ تلنگانہ میں برسراقتدار بھارت راشٹر سمیتی کے سرکردہ قائدین بالخصوص چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند کے ٹی راما راؤ‘ دختر کے کویتا کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کی جانب سے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب بھارت راشٹر سمیتی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی قائدین بنڈی سنجے ‘ ایٹالہ راجندر کے علاوہ بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بی ایل سنتوش کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اسی طرح کانگریس کے ریاستی صدر اے ریونت ریڈی کو بھی بی آر ایس حکومت کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جار ہی ہے جبکہ ریونت ریڈی کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہونے لگی ہے۔ کانگریس قائد اے ریونت ریڈی بی آر ایس سربراہ کے سی آر کے فرزند اوردختر کے علاوہ ان کے بھانجے سنتوش کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ بی آر ایس حکومت کی جانب سے صدرپردیش کانگریس اے ریونت ریڈی کو ان کے ٹی ایس پی ایس سی معاملہ میںان کے بیان پر ایس آئی ٹی کی نوٹس اوربی جے پی ریاستی صدر بنڈی سنجے کو بھی اسی معاملہ میں دی گئی ایس آئی ٹی کی نوٹس کو بی آر ایس کی دونوں سیاسی جماعتوں کے اہم قائدین کے ساتھ شخصی دشمنی کے طور پر دیکھا جا رہاہے اور اس کے علاوہ بی آر ایس حکومت بی جے پی رکن اسمبلی ایٹالہ راجندر کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے چیف منسٹر تلنگانہ کی دختر کے کویتا کو تحقیقات کے لئے طلب کئے جانے کے معاملہ میں کہا جا رہاہے کہ یہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کی جانب سے بی آر ایس کو ہراسانی کی کوشش ہے اور یہ بھی کہاجارہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے جلد ہی کالیشورم پراجکٹ میں ہونے والی دھاندلیوں میں بھی تحقیقات کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح صدرپردیش کانگریس مسٹر اے ریونت ریڈی نے ٹی ایس پی ایس سی کے علاوہ دیگر معاملات میں ریاستی حکومت بالخصوص ریاستی وزیر و فرزند کے سی آر مسٹر کے ٹی رامار راؤ پر الزامات عائد کرتے ہوئے جو دعوے کئے ہیں وہ کانگریس کی جانب سے بی آر ایس کے خلاف شدید انتقامی کاروائی تصور کیا جا رہاہے۔ پڑوسی ریاست آندھراپردیش میں برسراقتدار وائی ایس آر کانگریس پارٹی کسی بھی صورت میں جنا سینا اور تلگو دیشم کے درمیان اتحاد کو روکنے کے لئے دونوں سیاسی جماعتوں کے اہم قائدین کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں مشکلات میں مبتلاء کرنے کی کوشش کررہی ہے اور چیف منسٹر آندھراپردیش وائی ایس جگن موہن ریڈی سربراہ تلگودیشم پارٹی اور ان کے فرزند نارا لوکیش نائیڈو کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ آندھراپردیش میں قانون ساز کونسل کے انتخابات کے دوران جگن موہن ریڈی کے گڑھ ’’پولی ویندلہ‘‘ میں تلگودیشم کی کامیابی کے بعد تلگو دیشم پارٹی کے حوصلوں میں اضافہ ہونے لگا ہے اور وہ جگن موہن ریڈی کے خلاف میدان میں شدت کے ساتھ جدوجہد کے موڈ میں آچکی ہے جبکہ چیف منسٹر جگن موہن ریڈی نے نارا لوکیش نائیڈو کی یاترا کو روکنے کے لئے متعدد اقدامات و کوششیں کی ہیں لیکن اس کے باوجود تلگو دیشم پارٹی وائی ایس آر سی پی کے اہم قائدین کو نشانہ بنا رہی ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ وائی ایس جگن موہن ریڈی کے لئے سربراہ تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو کے حلقہ کپم میں اثرانداز ہونا ممکن نہیں ہے اسی لئے وہ تلگو دیشم پارٹی سربراہ اور جنا سینا سربراہ پون کلیان کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دونوں کے درمیان اتحاد کی کوئی راہ ہموار نہ ہوسکے۔ آندھراپردیش میں سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری اس دشمنی کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی شراب معاملہ کے علاوہ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے بھائی وائی ایس ویویکانند ریڈی کے قتل کے معاملہ میں وائی ایس آر سی پی کے ارکان پارلیمان کو نشانہ بنارہی ہے اور یہ دعویٰ کیا جا رہاہے کہ شراب معاملہ میں ساؤتھ گروپ کا حصہ وائی ایس آر سی پی رکن پارلیمنٹ اور وائی ایس ویویکانند ریڈی کے قتل کے معاملہ میں ایک اور وائی ایس آر سی پی کے رکن پارلیمنٹ ملوث ہیں۔ دونوں ریاستوں میں اہم سیاسی جماعتوں کی اس رسہ کشی میں دیگر چھوٹی سیاسی جماعتیں ان کو نقصان یا فائدہ پہنچانے کی متحمل بننے لگی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہاہے۔م