تمباکو نوشی چھوڑنے کے بعد دل کی صحت کب تک بہتر ہوتی ہے؟

   

تمباکو نوشی کی عادت چھوڑنے کے بعد بھی امراض قلب اور فالج کا خطرہ کم ہونے کیلئے 15 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔یہ بات امریکہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔وینڈربلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی تحقیق کے دوران 9 ہزار کے قریب افراد کے 50 سال تک کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور معلوم ہوا کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد کے دلوں کو نکوٹین، تمباکو اور دیگر کیمیکلز سے ہونے والے نقصان سے نجات پانے کیلئے ایک دہائی سے زائد عرصہ درکار ہوتا ہے۔
اس سے قبل ماضی میں طبی تحقیقی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ تمباکو نوشی ترک کرنے کے 5 سال کے اندر فالج کا خطرہ ختم ہوجاتا ہے مگر اس نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ دورانیہ 15 سال کا ہے۔تاہم محققین کا کہنا تھا کہ دل اور خون کی شریانیں تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصان کو تیزی سے ریکور کرتے ہیں۔
امراض قلب دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات کی بڑی وجہ ہے جس میں ہر سال مختلف وجوہات جیسے موٹاپے، تناؤ، ورزش نہ کرنا اور ناقص غذا کے نتیجے میں اضافہ ہورہا ہے۔ محققین کے مطابق تمباکو نوشی ترک کرنے کے 16 سال بعد جاکر امراض قلب اور فالج کا خطرہ اس عادت سے زندگی بھر دور رہنے والوں کے برابر آتا ہے۔
تاہم تمباکو نوشی چھوڑنے سے ہارٹ اٹیک اور خون کی شریانوں کے دیگر امراض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ تمباکو نوشی کو چھوڑنے کے محض 20 منٹ بعد ہی اس فرد کی دھڑکن اور بلڈ پریشر معمول کی سطح پر آجاتا ہے۔بارہ گھنٹے بعد خون میں کاربن مونوآکسائیڈ کی سطح گر جاتی ہے، ایک ہفتے بعد ہارٹ اٹیک کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے، تاہم امراض قلب کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔اس تحقیق کے نتائج حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کانفرنس میں پیش کیے گئے۔
کیا کبھی آپ نے سوچا کھانا اس وقت زیادہ مزیدار کیوں لگتا ہے جب بھوک زیادہ لگ رہی ہو اور اس وقت ذائقہ کیوں غائب محسوس ہوتا ہے جب پیٹ پھرا ہوا ہو؟
تو اس کا جواب آخرکار سائنس نے ڈھونڈ لیا ہے۔
درحقیقت جب پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوں تو غذاؤں کا ذائقہ تو اچھا لگتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ تلخ یا کڑوی چیزوں کو کھانا بھی آسان ہوجاتا ہے۔اور اس کے پیچھے ایک عصبی سرکٹ چھپا ہوتا ہے۔یہ بات جاپان کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار سائیکلوجیکل سائنسز کی تحقیق میں سامنے آئی۔
عام طور پر جب زیادہ بھوک نہ ہو تو ہم لوگ تلخ اور کھٹے ذائقے کے مقابلے میں میٹھے کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ ترجیحات اندرونی کیفیت جیسے بھوک کی صورت میں بدل جاتی ہے۔محققین نے چوہوں پر دریافت کیا کہ بھوک کی صورت میں یہ جانور مٹھاس کو بہت زیادہ ترجیح دیتا ہے جبکہ دیگر بدذائقہ چیزوں کے لیے بھی حساسیت میں کمی آجاتی ہے۔
انہوں نے ایسے نیورونز پر توجہ مرکوز کی جو بھوک کی کیفیت میں متحرک ہوکر پیٹ بھرنے کے رویے کو جنم دیتے ہیں جبکہ 2 ایسے عصبی کیفیات کی شناخت کی گئی جو بھوک کی صورت میں ذائقے کی ترجیحات میں تبدیلیاں لاتی ہیں۔
AgRP-expressing نامی یہ نیورونز تھیلمس میں دریافت کیے گئے جو دماغی کا ایسا حصہ ہے جو بھوک کو کنٹرول کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ انہوں نے چوہوں میں ان نیورونز کو متحرک کرکے یہ دیکھا کہ بھوک کی صورت میں ان کے ذائقے پر کیا تصورات غالب آجاتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان نیورون کو متحرک کرنے میں ذائقے کے حوالے سے ترجیح میں 2 مختلف انداز سے تبدیلی آتی ہے، یعنی میٹھے کی خواہش بڑھ جاتی ہے جبکہ تلخ ذائقے کیلئے ناپسندیدگی بھی کم ہوجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ذیایبطس اور موٹاپے کے حوالے سے اس عصبی طریقہ کار کے کردار پر تحقیق کی جانی چاہیے، مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ موٹاپے کے شکار افراد میٹھے کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور یہ ممکنہ طور پر اس عصبی نظام کی سرگرمی میں تبدیلی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشنز میں شائع ہوئے۔
٭٭٭