پولیس نے گرم سلاخ سے میرے ہاتھ داغ دیئے، شعلوں میں ڈھکیلنے کی کوشش کی۔ سی اے اے کیخلاف احتجاج کے دوران یوپی پولیس کی بربریت
نئی دہلی 24 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران اترپردیش پولیس کی بربریت کا شکار ایک کمسن لڑکے نے خود پر بیتی داستان سناتے ہوئے کہاکہ پولیس والوں نے میرے ہاتھ گرم سلاخ سے داغ دیئے اور سڑک پر جلتی آگ میں بھی مجھے ڈھکیلنے کی کوشش کی۔ لیکن دوسرے دو پولیس ملازمین نے مجھے بچالیا۔ مظفر نگر سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ لڑکے نے کہاکہ پولیس نے مجھے بُری طرح مارا اور پیٹا۔ سی اے اے کیخلاف احتجاج کے دوران یوپی پولیس نے بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ سادہ لباس میں پولیس ملازمین نے معصوموں پر ظلم زیادتیاں کیں۔ کاروان محبت کی حقائق کا پتہ چلانے والی ٹیم نے پولیس کی زیادتیوں پر دستاویزی رپورٹ تیار کی ہے۔ اِس ٹیم نے حالیہ دنوں میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے پولیس اسٹیشنوں میں کمسن بچوں کو برہنہ کیا اور اِن میں سے کئی بچوں کو بُری طرح مارا پیٹا، ان کی پیٹھ پر زخموں کے نشان دیکھے گئے۔ مظفر نگر میں کاروان محبت کی ٹیم نے کہاکہ پولیس بربریت اور گھناؤنی حرکتوں کا انکشاف اُس وقت ہوا جب اُنھوں نے ایک 14 سالہ بچے سے بات چیت کی۔ خوفزدہ اور بظاہر پولیس کی مار سے سہما ہوا یہ لڑکا پولیس تحویل میں خود پر بیتی داستان سناتے ہوئے روپڑا۔ وہ ہجوم میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے کے لئے گیا تھا جہاں پولیس نے اِسے دبوچ لیا اور اِس پر اندھا دھند لاٹھیاں برسائیں۔ گرم سلاخ سے میرے ہاتھ داغ دیئے۔ اِس کے بعد مجھے گاڑی میں بٹھاکر بُری طرح مارا۔ دو دن تک بیاریکس میں غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا۔ اِسے کھانا بھی نہیں دیا گیا۔ پولیس اسٹیشنوں میں زیرحراست تمام لوگوں کی یہی کہانی ہے۔ اِس لڑکے نے کہاکہ گرفتاری کی پہلی رات تمام بچوں پر بھاری پڑی جہاں پولیس والوں نے وحشیانہ طریقہ سے اِن معصوم بچوں کو لاٹھیوں سے پیٹا اور اِن سے کہاکہ وہ کم از کم 100 نام بتائیں تاکہ ہم اُن لوگوں کو گرفتار کرسکیں۔ اِس نے دیکھا کہ لاک اپ میں پولیس والے دیگر کئی افراد کو مار رہے ہیں۔ خاص کر کرتا پائجامہ اور داڑھی رکھنے والے بچوں کو شدید نشانہ بنایا۔ اِس لڑکے نے حقائق کا پتہ چلانے والی ٹیم سے کہاکہ پولیس نے گالی گلوج کی اور قرآن مجید کے تعلق غلط الفاظ استعمال کئے۔ جب ایک عہدیدار اِس کے قریب آیا تو اِس نے پانی مانگا۔ پہلے اُس نے مجھ پر تھوکا اور بعد میں پانی دیا۔ ہم دن بھر یوں ہی بیٹھے رہے اور باری باری سے آکر ہمیں مار پیٹ کرتے رہے۔ ہمیں دو دن تک کھانا نہیں دیا گیا۔ اِن لوگوں نے فون پر یا شخصی طور پر ہمارے خاندان والوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اِس لڑکے نے بتایا کہ جب وہ نماز ادا کرکے گھر واپس ہورہا تھا اِس نے دیکھا کہ اِس کے گھر کے باہر لوگ دوڑ رہے ہیں۔ میں گھر پہونچ کر ماں سے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے، وہ دکھائی نہیں دے رہا ہے، اُس کی تلاش میں باہر نکلا۔ پولیس کی گاڑیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں، اِن لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور زدوکوب کیا۔ گرفتاری کے بعد ایک کانسٹبل نے مجھ سے حقارت آمیز لہجہ میں سوال کیاکہ ’’تمہارا اللہ تمہیں بچانے آئے گا‘‘۔ پولیس والوں نے ہمیں مارا اور جئے شری رام جیسے نعرے لگانے پر زور دیا۔ سنبھل ٹاؤن سے بھی گرفتار ایک لڑکے نے پولیس ظلم کی اِسی طرح کی داستان سنائی۔ اِس وقت بھی 19 کمسن لڑکے پولیس تحویل میں ہیں۔