’’تم سوال کرو میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ الیکشن میں دونوں کو فائدہ ہو‘‘

,

   

اسمبلی میں بی آر ایس اور حلیف کی جوڑی، ایک دوسرے کے کان خوش کرنے کی پالیسی،9 سال سے مسائل اور جواب کا ایک ہی گراموفون ریکارڈ
حیدرآباد۔/6اگسٹ، ( سیاست نیوز) سیاسی فائدہ کیلئے پارٹیاں کسی بھی پلیٹ فارم کا استعمال کرسکتی ہیں۔ قانون ساز ادارے عوامی مسائل کے حل اور عوام کے حق میں قانون سازی کیلئے ہوتے ہیں لیکن تلنگانہ میں سیاسی مقصد براری نے عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اب جبکہ اسمبلی کی موجودہ میعاد کا آخری سیشن جاری ہے برسر اقتدار بی آر ایس اور اس کی حلیف مجلس نے اسمبلی کو عملاً انتخابی پلیٹ فارم میں تبدیل کردیا ہے تاکہ فائدہ دونوں کو ہو۔ مانسون سیشن تین دن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن لمحہ آخر میں مزید دو دن کی توسیع کی گئی۔ سیشن کے ایام میں حکومت اور اس کی حلیف جماعت کا جو مظاہرہ دیکھنے کو ملا وہ عوام کی رائے کے مطابق ’’ تم سوال کرو میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ الیکشن میں تم کو بھی فائدہ اور مجھے بھی فائدہ ہو۔‘‘ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیاسی مبصرین نے میچ فکسنگ کا جو لفظ سیاستدانوں کیلئے استعمال کیا ہے اس کا مکمل اطلاق تلنگانہ اسمبلی میں دیکھا جارہا ہے۔ ایک دوسرے کے کان خوش کرتے ہوئے رائے دہندوں کو خوش فہمی کا شکار بنانے کی یہ پالیسی اسمبلی سیشن میں عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہے کہ الیکشن میں فائدہ ہو اور عوام یہ تاثر میں رہیں کہ ان کے مسائل کا حل نکل آئے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حلیف جماعت نے جو مسائل پیش کئے ان میں زیادہ تر گذشتہ 9 برسوں سے اسمبلی میں مسلسل پیش کئے جارہے ہیں اور ان کا جواب بھی ہمیشہ کی طرح ’ پرانا ریکارڈ‘ ثابت ہورہا ہے اور سوال و جواب میں ایک دوسرے کی ستائش اور تعریف سے عوام محسوس کرنے لگے ہیں کہ الیکشن سے عین قبل اسمبلی انتخابی پلیٹ فارم میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت گذشتہ 9 برسوں کے دوران اقلیتی بہبود کیلئے مختص کردہ فنڈز، اس کے خرچ، اسکیمات اور ان کیلئے جاری کردہ بجٹ کی تفصیلات پیش کرتی۔ حکومت کی کئی اسکیمات ایسی ہیں جو بجٹ کی عدم اجرائی کے سبب ٹھپ ہوچکی ہیں لیکن اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الفاظ کے تبادلہ سے یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے اقلیتوں کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں۔ اقلیتوں کے مسائل کے علاوہ پرانے شہر سے متعلق جن مسائل کو پیش کیا جارہا ہے وہ گذشتہ 9 برسوں سے برقرار ہیں اور حکومت کا جواب بھیگراما فون ریکارڈ کی طرح ہر اسمبلی سیشن میں دہرایا جاتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ایوان کو انتخابی مہم کے مرکز میں تبدیل کردیا گیا اور حقیقی اپوزیشن کو اظہار خیال کی بھی اجازت نہیں۔ ایک سے زائد مرتبہ بی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ اور وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے یہ دعویٰ کیا کہ کے سی آر تیسری میعاد کیلئے چیف منسٹر منتخب ہوں گے اور بی آر ایس کی حکومت ہوگی۔ کانگریس کے ڈپٹی لیڈر سریدھر بابو نے جب یہ کہا کہ بی آر ایس حکومت کے محض تین ماہ باقی ہیں جس کے بعد کانگریس برسر اقتدار آئے گی، ریاستی وزراء کے ٹی آر، ہریش راؤ اور پرشانت ریڈی نے بارہا تقریر میں مداخلت کی۔ ریاستی وزراء نے کسانوں کو مفت برقی سربراہی مسئلہ پر ریونت ریڈی کے موقف کی وضاحت طلب کی جبکہ ریونت ریڈی نے امریکہ میں دیئے گئے بیان پر وضاحت کردی ہے۔ کانگریس ارکان کی حوصلہ شکنی اور عوام میں حکومت کی برتری ظاہر کرنے کیلئے سریدھر بابو سے معذرت خواہی کی مانگ کی۔ تینوں ریاستی وزراء بارہا اس بات کو دہرارہے تھے کہ تلنگانہ میں بی آر ایس کی ہیٹ ٹرک ہوگی۔ سی ایل پی لیڈر بھٹی وکرامارکا نے جب مفت برقی سربراہی پر برسراقتدار پارٹی کو کھلے مباحث کا چیلنج کیا تو کسی بھی وزیر نے ایوان میں بڑھ کر چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت نہیں کی کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ برقی سب اسٹیشنوں کے ریکارڈ کے مطابق کسانوں کو بمشکل 10 گھنٹے برقی سربراہ کی جارہی ہے۔ اسمبلی میں عددی طاقت کی بنیاد پر بی آر ایس اور اس کی حلیف نے کم تعداد والی کانگریس اور بی جے پی کو نہ ہی اظہار خیال کا موثر موقع دیا بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ایوان میں برسراقتدار پارٹی اور اس کی حلیف دونوں ہی حقیقی عوامی نمائندے ہیں۔