تنقیدوں کے جواب میں شخصی حملے
مانیں نہ مانیں آپ مگر اضطرابِ شوق
تیور مزاج حسن کے پہچان تو گیا
مرکزی حکومت ایسا لگتا ہے کہ الفاظ کے الٹ پھیر اور شخصی حملوں اور جملے بازیوں کے ذریعہ ہی اپنی دوسری معیاد میں بھی کام کرنا چاہتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کی پالیسیوں ‘ اقدامات اور موجودہ حالات پر اگر تنقید کی جا رہی ہے اور حکومت کی ناکامیوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں تو اس کے جواب میں کوئی وضاحت کرنے اور اپوزیشن کے الزامات کو غلط ثابت کرنے کی بجائے حکومت کے نمائندے اور بی جے پی قائدین شخصی حملوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ در اصل ان کی بوکھلاہٹ ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کے پاس اپوزیشن کی تنقیدوں کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ جو سوال پوچھے جا رہے ہیں انہیں حکومت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور حکومت خود کو جوابدہ نہیں مانتی ۔ وہ کسی کو بھی سوال پوچھنے کا حق دینے کو تیار نہیں ہے بلکہ عملا وہ ملک میں اپوزیشن کے وجود کو ہی تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں۔ کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی اگر حکومت سے کوئی سوال کرتے ہیں تو اس کو مذاق کا موضوع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بی جے پی کا آئی ٹی سیل اس میں سرگرم ہوجاتا ہے اور شخصی حملے کئے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خود مرکزی وزراء تک سوالات کے بدلے میں شخصی حملے کرتے ہیں اور تنقیدوں کا جواب دینے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ راہول گاندھی نے جب حکومت سے چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعہ پر سوال کیا اور یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ آیا چین نے ہندوستان کی سرحد کے اندر کہیں کوئی قبضہ کیا ہے یا نہیں تو اس کا جواب دینے کی بجائے انہیں ’’ پپو کا گھونسلہ ۔ خاندان کا چونچلہ ‘‘ کہتے ہوئے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسے رکیک حملے کسی آئی ٹی سیل کے تنخواہ یافتہ ملازم کی جانب سے نہیں کئے گئے بلکہ ایک ذمہ داری مرکزی وزیر محتار نقوی کی جانب سے کئے گئے ہیں۔ اس طرح کے جوابات در اصل حکومت کی چبھن اور تکلیف کو ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت ان سوالات کا جواب دینے کے موقف میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ چاہتی ہے کہ کسی بھی گوشے سے ایسے سوالات کئے جائیں جن سے حکومت کو الجھن کا سامنا کرنا پڑے ۔
پرینکا گاندھی واڈرا اگر حکومت سے کوئی سوال کرتی ہیں یا پھر حکومت کی ناکامیوں کو ظاہر کرتے ہوئے خود مائیگرنٹس کی مدد کرنے کیلئے آگے آتی ہیں تو اس کا خیر مقدم کرنے کی بجائے انہیں بھی تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ شخصی حملے کئے جاتے ہیں اور جب وہ اترپردیش میں زیادہ سرگرمی کے اشارے دیتی ہیں تو دہلی میں انہیں ایس پی جی سکیوریٹی کے تحت فراہم کردہ سرکاری بنگلہ کا تخلیہ کردینے کی نوٹس بھی جاری کردی جاتی ہے ۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اگر حکومت سے کوئی سوال کرتی ہیں تو انہیں اطالوی نژاد کہتے ہوئے ٹارگٹ کیا جاتا ہے ۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی یا ان کی پارٹی ترنمول کانگریس کے قائدین کی جانب سے اگر پٹرول قیمتوں میں اضافہ اور ملک کی ابتر ہوتی ہوئی معیشت پر تنقید کی جاتی ہے یا پھر کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو انہیں شخصی مایوسی کا نام دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر اپوزیشن قائدین میں سے کوئی حکومت پر تنقیدیں کرتے ہوئے کوئی سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس پر ہوا کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن خود بی جے پی قائدین کی جانب سے جب زبان درازیاں کی جاتی ہیں اور ناشائستہ الفاظ یا جملے استعمال کئے جاتے ہیں تو ان کی مذمت کرنے کی بجائے ان کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تمام پارٹی قائدین اور سارا آئی ٹی سیل اس سلسلہ میں حرکت میں آ جاتا ہے ۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں حکومت سے مسلسل سوال کئے جاتے ہیں۔ یہی جمہوریت کی انفرادیت بھی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی عوام ہی کے ووٹوں سے اپوزیشن میں آنے والوں کے سوالات کے جواب دے ۔ عوام میں اگر کوئی الجھن ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین صرف اقتدار کی زبان میں بات کرنا ہی جانتے ہیں اور وہ اپوزیشن یا عوام کی جانب سے سوال پوچھنے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کانگریس مکت بھارت کا نعرہ در اصل ساری اپوزیشن کو ختم کرنے کا اشارہ ہی تھا ۔ جس طرح سے حکومت سوالات سے الجھن محسوس کر رہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن یا عوام کسی کو بھی جواب دینے تیار نہیں ہے ۔