کرئہ ارض پراس وقت جوامت توحیدکی علمبردارہے وہ محمدعربی ﷺ کی امت ہے،عقیدئہ توحیدکوقلوب میں راسخ کرنا،کفروشرک کی تاریکیوں میں توحیدکا نورپھیلانا اورکروڑوں خدائوں پریقین رکھنے والوں کوتوحیدکا سبق پڑھانا اُمت مسلمہ کا فریضہ ہے،سورج،چاند،ستارے،بلندبالا پہاڑ،بہتے دریا ،سمندروں کی وسعت وگہرائی اوران کا تموج،اس میں پرورش پانے والی بے شمار مخلوقات ،چھوٹے چھوٹے پودے،اونچے اونچے گھنے اورسایہ دار درخت سب کے سب اپنے خالق ومالک کی تسبیح بیان کررہے ہیں، کیا آپ نے نہیں دیکھا آسمانوں اورزمین کی کل مخلوق ،اورپرپھیلائے اڑنے والے تمام پرندے اللہ سبحانہ کی تسبیح میں مشغول ہیں ،ہرایک کواپنی نمازوتسبیح کا علم ہے(النور:۴۱)تمام مخلوقات کواللہ سبحانہ نے ایسا علم الہام والقاء کردیاہے کہ وہ اللہ سبحانہ کی تسبیح کیسے بیان کریں اورکیسے نمازاداکریں ۔اور دعوت غوروفکردے رہے ہیں کہ ان کا پیداکرنے والا اللہ سبحانہ وتعالی ہے۔اسکی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں اورنہ ہی نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا مددگارہے،ہرشیٔ اپنے وجودوبقاء ،اپنی حیات ونشونماء میں اسی کی محتاج ہے، کائنات میں بکھرے عجائبات قدرت انسانوں کودعوت توحیددے رہے ہیں،توحیدکاچراغ دلوں میں روشن کرنے کیلئے اللہ سبحانہ نے ساری انسانیت کوجھنجھوڑاہے،بتائوتوسہی آسمانوں اورزمین کوکس نے پیداکیا؟کون ہے جس نے آسمان سے بارش برسا ئی؟ پھراس سے ہرے بھرے باغات اگائے، ان باغوں کے درختوں کوتم ہرگزنہیں اگاسکتے ،کیا اللہ جیسا اورمعبودبھی ہے؟یہ تووہ لوگ ہیں جوسیدھی راہ سے ہٹ جاتے ہیں ،کیا وہ جس نے زمین کوقرارگاہ بنایا ،اس کے درمیان نہریں جاری کیں اوراس کے لئے پہاڑبنائے اوردوسمندروں کے درمیان حاجزیعنی روک بنائی،کیا اللہ کے سواکوئی اوربھی معبودہے؟بلکہ ان میں سے اکثربلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں(النمل:۶۰،۶۱)آسمانوں کی بلندی اوراس کا حسن وجمال ،درخشاں ستاروں کی جھلملاہٹ،چاندوسورج کی جگمگاہٹ،فضاء میں تیرنے والے سیارے،شیریں پانی کے چشمے،بہتی نہریں،کھیتیاں باغات ،انواع واقسام کے پھلوں سے لدے اشجار،مختلف رنگوں اورخوشبوبکھیرنے والے گل وگلزار۔کیا انسانوں میں سے کسی کویا ان دیوی دیوتائوں کو ایسی کوئی قدرت حاصل ہے ؟ان کی بے بسی وعاجزی کے کفارومشرکین بھی معترف ہیں’’اوراگرآپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی نازل فرماکرزمین کواس کی موت کے بعد کس نے زندہ کیا؟تویقینا ان کا جواب یہ ہوگا کہ اللہ تعالی نے ‘‘ (العنکبوت:۶۳) حقائق کا اعتراف کئے بغیرکوئی چارئہ کارہی نہیں،پھربھی وہ باطل پراڑے رہیں تویہ ان کی بدبختی ہے،ایمان کی نعمت سے مشرف توبڑے خوش بخت ہیں اوروہ بدبختوں کونیک بخت بنانے کے منصب پرمامورہیں۔
دنیا میں بسنے والے انسانوں کی اکثریت کا رشتہ خالق ومالک سے کٹا ہواہے،کوئی سورج کا پرستارہے توکوئی چاندستاروں کا،کوئی بلندبالا پہاڑوں کا یا چھوٹے تراشیدہ پتھروں کا ،کوئی دریائوں کا توکوئی اونچے اونچے درختوں کا۔ایسے میں امت مسلمہ کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ ان کومخلوقات کی پرستش سے نکال کرالہ واحدکا پرستاربنائے۔ہندوستان جیسے سیکولرملکوں میں سیاسی ،سماجی ومعاشرتی،تجارتی اغراض ومقاصدکے تحت مخالفین توحیدکفارومشرکین سے (اختلاط)ومیل جول ناگزیرہے،یہ دوستی صرف ان مقاصدکیلئے ہوباقی ان کے ساتھ کوئی دینی یا دعوتی خیرخواہی کا جذبہ دل کونہ تڑپارہاہوتویہ اپنے فریضہ کی ادائیگی سے بڑی غفلت ہے جس کا خمیازہ دنیا وآخرت میں بھگتناپڑسکتاہے،ماں باپ ،بھائی بہن جیسے عظیم نسبی رشتے بڑے قابل قدرہیں لیکن اگریہ ایمان کے بالمقابل کفر سے محبت کرنے لگیں توان سے دوستی ومحبت کا تعلق درست نہیںہے (التوبہ:۲۴)
ایمان والوں کوچھوڑکر کفارسے دوستی وموالات اورخصوصی تعلق قائم نہ کریںاورجوایسا کرے گا وہ اللہ سبحانہ کی حمایت میں نہیں رہے گاالا یہ کہ ان کے شرسے کسی طرح بچائومقصودہو(آل عمران:۲۸)جمہوری ممالک میں جہاں کفروشرک کا غلبہ ہوضرورت ومصلحت کے تحت ظاہری احوال میں دوستی نبھائی جاسکتی ہے ،امن وصلح کے معاہدے بھی کئے جاسکتے ہیں،تجارتی لین دین ، سیاسی امورکی انجام دہی میں معاونت اورجومسلمانوں کے دشمن نہ ہوں ان سے سلوک ومدارات وغیرہ جیسے معاملات روا رکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن قلبی لگائو،دل کی گہرائیوں سے محبت کارشتہ نہیں قائم کیاجاسکتا۔اور کفروشرک کی مجلسوں اورپوجاپاٹ کے خصوصی ماحول میںکوئی اعانت یاشرکت ہرگزروانہیں رکھی جاسکتی۔ایسی امتحان کی گھڑیاں کسی مسلم کو کبھی درپیش ہوں تویہ فرمان الہی وردزباں ہوناچاہیے کہ ’’آپ فرمادیجئے اے میری قوم تم عمل کئے جائواپنی جگہ پرمیں اپنا کام کرنے والا ہوں‘‘ (الانعام:۱۳۶)جوخالص دین توحیدکواختیارنہ کرناچاہیںاورکفروشرک پرڈٹے رہیں ان کی مرضی لیکن عقیدئہ توحیدکاکوئی علمبردار،الہ واحدکا پرستار،دنیوی وسیاسی امورمیں حدودشریعت کی پاسداری کے ساتھ تعلق تو نبھاسکتا ہے لیکن باطل کے پرستاروں کی چاہت کے مطابق کفروشرک کی راہوں میں کبھی ان کا ساتھ نہیںدے سکتا۔لیکن افسوس ! مرکزی کابینہ میں شامل ایک مسلم وزیرکے بارے میں اخبارات میں یہ اطلاع شائع ہوئی جیسلمیرکے شیوامندرمیں پوجاکی العیاذباللہ،اسی پراکتفاء نہیں کیابلکہ یہ کہا ’’دیو۔دیویاں کسی طبقہ یا ذات پات کے نہیں ہوتے وہ ہندویا مسلم نہیں ہوتے ہرایک پرانہیں اعتقاد ہے‘‘ مندرکے پجاری مدھوچنگانی نے کہا ’’کہ انہوں نے یہ پوجاپہلی مرتبہ نہیں کی بلکہ اس مندرسے ان کی دیرینہ وابستگی رہی ہے،وہ اسمبلی انتخابات کے دوران بھی کئی مرتبہ پوجا کرچکے ہیں،اس سے پہلے لارڈ شیواکی مورتی کودھونے کے بعددودھ اورشہدکا نذرانہ پیش کرچکے ہیں‘‘ اللہ کی پناہ۔یہ سب کرچکنے اورکہنے کے بعدایمان کہاں باقی رہا؟ہم ان کے حق میں ہدایت اورتوفیق خیرکی دعاکرتے ہیں ، صدق دل سے توبہ کرکے دوبارہ تجدیدایمان وتجدیدنکاح کی دعوت دیتے ہیں۔ہماری ریاست کے ایک مؤقروزیرجوخیرسے متدین ہیں اوران کے آباوجدادبھی راسخ الاعتقادمومن ومسلم رہے ہیں۔انہوں نے رواروی میں ہوئی اپنی غلطی پرندامت کا بھرپوراظہارکیا ہے، پتہ نہیں کہ وہ کس دبائومیںخصوصی پوچاپاٹ کی مجلس میںشریک ہوگئے ،پنڈت سے پرسادبھی حاصل کرلیا،لیکن خود انہوں نے اس کا استعمال نہیں کیا ،جس کی وجہ ملت اسلامیہ کے درمیان چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں ،جتنے منہ اتنی باتیں،کہنے والے بہت کچھ کہہ رہے تھے،کچھ افرادمختلف دارالافتاء کے چکرکاٹ رہے تھے،ظاہرہے علماء کا فریضہ منصبی ہے کہ وہ ملت کی رہبری ورہنمائی کریں،اظہارندامت واعتراف کے بعدکچھ کہنے کا موقع تونہیں ہے، تاہم’’ الدین النصیحۃ‘‘کے تحت خیرخواہی کی بات یہی ہے کہ آئندہ مشتبہ اُمورسے بھی اپنے آپ کوبچایا جائے۔کئی ایک مسلم افرادکے بارے میں ایسی اطلاعات اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں جومنصب وکرسی کیلئے دین وایمان کودائوپرلگانے سے نہیں چوکتے ۔
ایمانی غیرت وحمیت نعمت خدادادہے اس کی حفاظت میں ایمان کی حفاظت ہے،یہی ایمانی غیرت وحمیت انسان کوکفروشرک کی راہوں پرچلنے اورکفریات وشرکیات اوراوہام وخرافات میں پڑنے سے بچاتی ہے۔ایمان پراستقامت کیلئے اللہ سبحانہ سے ڈرنے اوراس کے سچے چاہنے والوںکی صحبت اختیارکرنے کی ہدایت دی گئی ہے(التوبہ:۱۱۹)
صحبت کا اثرقائم ہوکررہتاہے،اچھوں کی صحبت کا اچھااثراوربروں کی صحبت کا برااثرضروررنگ دکھاتاہے۔عقائدواعمال ، اخلاق وعادات سے صحبت کے اثرات جھلکنے لگتے ہیں،اسبابی نقطئہ نظرسے اطباء متعدی مرض کے شکارکسی مریض سے دوررہنے کی ہدایت کرتے ہیں گوکہ اسلام میں کوئی مرض متعدی نہیں ہے،لیکن اللہ سبحانہ کے باغی اوراس کے نافرمانوں کی مسلسل صحبت متعدی مرض کی طرح اچھے خاصے کسی مومن ومسلم کویا مسلم سماج کوہدایت کے نورانی راستہ سے ہٹاکرکفروشرک کی تاریکیوں میں ڈھکیل سکتی ہے۔اس لئے ان کی صحبت و ہمنشینی اختیارکرنے سے روکاگیاہے(الانعام:۶۸)
ایمانی نقطئہ نظر یہ ہے کہ دنیااوراس کی نیرنگیاں ،دنیا کے سامان عیش وعشرت ،عہدہ ومنصب ،جاہ وحشمت اللہ کی نظرمیں کوئی اہمیت نہیں رکھتے ،دنیا کی بے ثباتی اوراس کی فناء کا یقین تازہ کرنے کیلئے سورئہ الحدیدآیت ۲۰کی تلاوت اوراس کے معانی ومفاہیم میں غووفکرکیاجائے ،جس سے دنیا اور اس کی حقیقت قلوب میں راسخ ہوسکتی ہے۔