انسان کی کمزوری ہے کہ جب وہ مقابلہ اور دلیل سے عاجز و بے بس ہوجاتا ہے اور اپنے مخالف کی قوت ، طاقت ، صداقت اور حقانیت کو برداشت نہیں کرپاتا تو وہ انسانیت سے گری ہوئی حرکتوں کا ارتکاب کرتا ہے ۔ بسا اوقات نفرت و عداوت اور بغض و دشمنی میں حیوانیت کے حدود کو بھی پار کرجاتا ہے ۔ یہ باطل کا روز اول سے وطیرہ رہا ہے ، وہ حق کو اپنے دلائل و قرائن سے نیچا نہیں کرسکتا اور حق کی مقبولیت کو برداشت نہیں کرپاتا تو وہ حق کو مشتبہ کرنے ، اُس کی حقیقت کو متاثر کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔
چنانچہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے جب اسلام کی دعوت پیش کی تو کفار مکہ نبی اکرم ﷺ کے سخت مخالف ہوگئے اور انھوں نے دعوت و تبلیغ سے روکنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، باطل طریقہ اختیار کیا ، تکلیفیں دیں ، ایذائیں پہنچائیں ، سازشیں رچیں ، منصوبے بنائے ، بائیکاٹ کیا ، ہمنواؤں پر ظلم کیا ، ظلم و ستم میں حد انسانیت کو بھی پار کرگئے لیکن قربان جائیے نبی اکرم ﷺ کی استقامت اور استقلال پر آپ کے پایہ ثابت قدمی میں رمق برابر فرق نہیں آیا اور پہلے سے زیادہ دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہوگئے اور روز بروز اس کے مثبت نتائج ظاہر ہوتے گئے ۔
صبر و تحمل ، عفو و درگز اور استقامت و استقلال کے جو انمٹ نقوش نبی اکرم ﷺ نے انسانیت کی تعلیم کے لئے چھوڑے ہیں وہ بے مثل و مثال ہیں۔ کفار و مشرکین کی ایذا رسانی ، طعنہ زنی، عیب جوئی ، ہجو گوئی اور نازیبا کلامی سے نبی اکرم ﷺ ملول ہوجاتے ۔ نبی اکرم ﷺ کی ادنیٰ سی تکلیف پروردگار عالم کو گوارہ نہیں ۔ پروردگار نے کتنے محبت بھرے انداز میں صبر کی تلقین کی (ترجمہ ) : ’’اور ( اے حبیب ) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر فرمائیے آپ تو ( ہمیشہ ) ہماری نگاہوں میں ہیں ، آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ قیام کریں اور رات کے حصہ میں بھی اﷲ کی تسبیح کیجئے اور اُس وقت بھی جب ستارے چھپ جاتے ہیں ‘‘۔ (سورۃ الطور :۴۹؍۴۸)
دوسرے مقام پر اﷲ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے : ’’بلاشبہ ہم (آپ کا ) مذاق کرنے والوں ( کو سزا دینے ) کے لئے کافی ہیں ، جو اﷲ کے ساتھ دوسرا معبود بناتے ہیں سو وہ عنقریب ( اپنا انجام ) جان لیں گے اور بے شک ہم کو معلوم ہے آپ کا سینہ ان کی باتوں سے دکھتا ہے پس آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور سجدہ کرنے والوں میں رہیں‘‘۔ ( سورۃ الحجر ۹۵؍ ۹۶؍ ۹۷؍ ۹۸ )
چودھویں پارے کے اختتام پر ارشاد ہے : ’’اور ( اے حبیب ) آپ صبر فرمائیے آپ کا صبر کرنا اﷲ کے ساتھ ہے ۔ خدارا آپ ان کے مکر و فریب سے تنگی محسوس نہ کریں۔ یقینا اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہے جو احسان کرنے والے ہیں‘‘۔
( سورۃ النحل ۱۲۷؍۱۲۸)
سورۃ المزمل میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ صبر و تحمل کی تلقین کرتے ہوئے بے ادب ، گستاخ ، طعنہ زن اور استھزاء کرنے والوں کے انجام سے متعلق فرماتا ہے : ’’وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، سو اسی کو آپ اپنا وکیل (کارساز) بنالیں اور آپ ان کی باتوں پر صبر فرماتے اور خوبصورتی سے ان سے کنارہ کش ہوجائیے اور ان جھٹلانے والے مالداروں کو مجھ پر چھوڑدیجئے اور ان کو بس تھوڑی سی مہلت دیں ۔ یقینا ہمارے پاس بھاری بھیڑیاں اور دہکتی ہوئی دوزخ ہے اور حلق میں اٹکنے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے ۔ جس دن زمین اور پہاڑ لرزنے لگیں گے اور پہاڑ بکھرتے ریت کے ٹیلے ہوجائیں گے ‘‘۔
( سورۃ المزمل ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳)
کتنے محبت بھرے انداز میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے محبوب کی دلجوئی فرمائی اور بیان کردیا کہ ان گستاخوں سے ان کی استھزاء ، مکر ، فریب ، ایذا رسانی ، عیب جوئی ، طعنہ زنی پر ہرتکلیف کا حساب لیا جائے گا ۔ ان بے ادبوں کو بخشا نہیں جائیگا ۔
یہ اُمت بھی اپنے نبی کو جی جان سے زیادہ چاہتی ہے ، اپنے مانباپ ، بھائی ، بہن آل و اولاد ، مال و متاع غرض کہ کائنات کی ہرچیز سے زیادہ عزیز رکھتی ہے ۔ اپنے نبیؐ کی شان میں ادنی سی بے ادبی و بے احترامی برداشت نہیں کرسکتی اور فتنہ پرور بار بار اس اُمت کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں لیکن دشمنانِ دین کو پتہ نہیں کہ یہ اُمت گرچہ باہمی اختلافات اور مسلکی تنازعات کا شکار ہو لیکن جب نبی اکرم ﷺ کی شان اقدس میں بے ادبی کا کوئی پہلو ہو تو ساری دنیا کے مسلمان بلا لحاظ رنگ و نسل مکتب و مسلک کنگھی کے دانوں کے برابر ایک ہوجاتے ہیں اور وہ دنیا کی کسی بھی طاقت و قوت سے نبرد آزما ہونے سے پیچھے نہیں ہٹے ۔
واضح رہے کہ توہین رسالت سے متعلق بین الاقوامی سطح پر سخت قوانین اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے جس طرح کہ ہندوستان ، امریکہ ، اور یورپ کے متعدد ممالک میں مخصوص قوموں کی اہانت و تذلیل اور مٹھی بھر افراد کے خلاف ظلم و زیادتی کے افکار پر سخت قوانین پائے جاتے ہیں اور اس کے مرتکب کو سزا کا حقدار گردانا جاتا ہے ۔ بالعموم دنیا مسلمانوں کے احتجاج پر سوالیہ نشان اُٹھاتی ہے لیکن ان کو قطعی احساس نہیں کہ وہ کڑوڑہا مسلمانوں کی دل آزاری کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ ان کو اہل اسلام کے جذبات و احساسات کا کچھ بھی پاس و لحاظ نہیں ۔