تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردے مومن پر بھروسہ

   

ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی

پچھلے روز مجھے بہت زیادہ ندامت اس وقت ہوئی جب میرے ساتھ کام کرنے والے چند خاتون اسٹاف جو غیر مسلم برہمن ہیں Coffe Break
کے دوران مجھ سے پوچھ بیٹھے کہ ڈاکٹر صاحب کیا اسلام میں شراب نوشی جائز ہوگئی، کیا ناجائز تعلقات
Illeegal Relation ship
کی اجازت دیدی گئی ہے۔ (ان خاتون فیکلٹیز) نے طنز کرتے ہوئے قہقہہ لگاکر کہا دراصل ان کا اشارہ انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا اور تلگو اخبار ساکشی کی اس سرخی کی طرف تھا جس میں امارات
(UAE)
میں باضابطہ ناجائز جنسی تعلقات اور شراب نوشی کی ببانگ دہل اجازت دیدی گئی۔ جو یقینی طور پر عالم اسلام کے لئے خون کے آنسوں بہانے کا وقت ہے۔
یہ وہی حکمراں ہے جنہوں نے پہلے اسرائل سے اپنے روابط مضبوط کئے پھر سیاحت کے فروغ کے بہانے حرام کو حلال قرار دیا۔ بت کدوں کی اجازت دینے لگے۔ پتہ نہیں ان کی غیرت ایمانی کو کیا ہوگیا۔ مادہ پرستی حب جاہ، حب مال نے ان کی آخرت پر ایمان اور جوابدہی کے احساس کو ملیایٹ کردیا ہے، العیاد بااللہ
اسی موضوع پر بولتے ہوئے ایک غیر مسلم ساتھی ڈاکٹر نے کہا ، ڈاکٹر سراج ہم کیسے ہمارے
Elhics،
کلچر کو بدل سکتے دراصل عرب ممالک کو
Elhnicty کے محافظ کہلاتے ہیں نا؟ یہ سننے کے بعد مجھے علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر یاد آگیا :
۔
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردے ومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اب یہاں گلاشکوہ، یہودی سازشوں، نصرنی کاوشوں یا بھگوا تنظیموں کی کرتوت سے نہیں بلکہ یہ وہ آگ ہے جو اندر سے لگی ہے۔ یہ قرب قیامت کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ جو امت ساری انسانیت کو فلاح بہبود، نفع رسانی کے لئے آئی تھی وہی اب انسانیت سوز، درندگی کا دروازہ کھول رہی ہے، اسلامی تعلیمات کے روشن آفتاب کو داغدار بنا رہی ہے۔

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
دراصل ایک طرف مغربی ممالک میں اسلام تیزی سے پھیلنے کی خبریں، یوروپی ممالک میں لوگ جوق درجوق اسلامی احکامات سے متاثر ہوکر ایمان کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں جس میں برطانیہ، امریکہ قابل ذکر ہیں۔ ایک خبر رساں ادارہ لکھتا ہے صرف برطانیہ میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ لوگ دائرے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہے جن کی عمر 27 سے 40 سال کے بیچ ہے۔

امریکہ کے حالیہ 2020 کے انتخابات میں 15 سے زیادہ مسلم ممبرس منتخب ہوئے ہیں۔ کئی سیاہ فام امریکی اسلام کے پیغمبر اسلام کے مساوات
(Equality)
سے آگاہ ہوتے ہی کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ مساجد پر نماز کے مناظر نے انہیں اسلام کے قریب کیا ہے۔ خود نومنتخب صدر جوبائیڈن نے مسلمان اور اسلام کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوئے اپنی تقاریر میں انشاء اللہ، کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بہار کے انتخابات میں تیجسوی یادو نے اپنی تقریر میں انشاء اللہ، بلکہ اللہ کا نام بھی لیا۔ دراصل یہ ظاہری اسباب سے اسلام کو کسی قسم کا خطرہ یا پشیمانی نہیں ہوگی لیکن ہمیں دعوت دین کی محنت کو منظم طریقے سے اپنانے، عام کرنے کی ضرورت ہے، جو تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ دراصل دعوت دین حق کی محنت نے امت کو نازک حالات میں سنبھالا ہے۔ ہند میں خاص کر وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ فتنا، فساد کے ذریعہ یس اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازشیں رچی جاتی ہیں۔

تو امت کے ذمہ داروں بلکہ ہر کلمہ گو کی یہ ذمہ داری بنتی ہے اس بقاء اور اس کی سرخروئی کا مستقل لائحہ عمل پر مسلسل جمے رہیں۔ نہ ہمیں اس کے لئے صحابہ اکرام کی جیسی جنگیں لڑنا ہے، نہ تلوار لیکر جہاد کرنا ہے، نہ جانوں کی قربانی کا مطالبہ ہے، نہ پورا مال لٹاکر مفلوک الحال بنایا جانا ہے، نہ بچوں کو یتیم بنانا ہے۔ نہ کاروبار چھوڑنا ہے نہ ملک بدر ہونا ہے بلکہ اپنے پیشے میں رہتے ہوئے دعوت کی محنت کو اپنی ضرورت، ذمہ داری سمجھنا ہے۔ تاریخ اسلام پر ایک نظر ڈالیں کہ چھٹی صدی ہجری میں صحرا سے اٹھنے والی آندھی (تاتاری قوم) نے ساری عالم اسلام کو تہس نہں کرکے رکھ دیا تھا، اسلام اور مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ سارے عالم سے اسلام کا وجود ختم ہو جائے گا۔ چراغ اسلام گل ہو جائے گا۔ حالانکہ نامور جامعات تھیں، یونیورسٹیز تھیں، دینی مدارس، علماء و زعما کی مشائخین کی کمی نہ تھی۔ ایسے اندوناک حالات میں چند مدبر، بلند ہمت مخلص بندے منصوبہ بند طریقے سے اٹھے اور ان جنگلی جنگجوں فاتحین کے دلوں پر دستک دی، دعوت دین کی محنت کو اپنایا، انہیں ایک اللہ کی طرف بلایا، رسالت کی گواہی دلائی، دیکھتے ہی دیکھتے ناموافق حالات نے کروٹ بدلی، سازگار ماحول دعوت دین کی بدولت قائم ہوا، مدد الٰہی نے انہیں اسلام دشمنوں کو اسلام کا علمبردار بنایا غلبۂ اسلام قائم ہوا۔
بقول برطانوی پروفیسر آرنالڈ (علامہ اقبال ؒ کے استاد) کے جہاں مسلمانوں کی تلوار اور جملہ وسائل ناکام ہوگئے وہاں بے لوث چند نوجوانوں کی محنت نے مسلمانوں کی تاریخ بدل کر رکھ دی جس سے پوری قوم من حیث القوم اسلام کے آغوش میں آکر صدیوں تک اسلام کے محافظ بن گئی۔

اب ہندوستان میں حالات بگڑتے جارہے اب اگلا نشانہ
CAA
اور یونیفارم سول کوڈ ہے
(UCD)
ہے اسی لئے ہم کو خود دین اسلام پر قائم رہتے ہوئے دعوت دین حق کو محنت (یہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے) فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاص کر نوجوانوں کی رہبری کرتے ہوئے گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیتے ہوئے Analyse کرنا منصوبوں کو علمی جامہ پہنانا اسپر عمل آوری کرنے میں ساری امت مسلمہ کی نجات ہے، یہی مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے، یہی مقصد تخلیق ہے یہی کامیابی کا واحد راستہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں وہ ہمارے لئے غیبی مدد شامل حال کرے گا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا