تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ (سورۃ الفاتحہ ۔۴)
گزشتہ سے پیوستہ … فرماتے ہیں یہاں تین چیزیں ہیں۔ عابد، عبادت اور معبود۔ عارف کو چاہئے کہ اس مقام پر اپنے آپ کو بھی بھول جائے۔ عبادت کو بھی مقصود نہ بنائے بلکہ اِس کی نگاہ ہو تو صرف اپنے معبود حقیقی پر تاکہ اس کے انوار جمال وجلال کے مشاہدہ میں استغراق کی نعمت سے سرفراز کیا جائے۔ اس لئے فرمایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ ۔ عابد واحد ہے لیکن صیغہ جمع کا استعمال کر رہا ہے ۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اپنی ناقص عبادت کو مقربین بارگاہ صمدیت کی اخلاص ونیاز میں ڈوبی ہوئی عبادت کے ساتھ پیش کرے تاکہ اِن کی برکت سے اس کی عبادت کو بھی شرف پذیرائی نصیب ہو۔یعنی جیسے ہم عبادت صرف تیری ہی کرتے ہیں اسی طرح مدد بھی تجھی سے طلب کرتے ہیں تو ہی کارساز حقیقی ہے تو ہی مالک حقیقی ہے ہر کام میں ہر حاجت میں تیرے سامنے ہی دست سوال دراز کرتے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس عالم اسباب میں اسباب سے قطع نظر کر لی جائے۔ بیمار ہوئے تو علاج سے کنارہ کش، تلاش رزق کے وقت وسائل معاش سے دست بردار، حصول علم کے لئے صحبت استاد سے بیزار۔ اس طریقۂ کار سے اسلام اور توحید کو کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ وہ جو شافی، رزاق اور حکیم ہے اسی نے ان نتائج کو ان اسباب سے وابستہ کر دیا ہے ۔ اسی نے ان اسباب میں تاثیر رکھی ہے ۔ اب ان اسباب کی طرف رجوع استعانت بالغیر نہیں ہو گی۔ اسی طرح ان جملہ اسباب میں سب سے قوی تر اور اثر آفریں سبب دعا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا کہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے ۔(جاری ہے )