تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں

   

تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ (سورۃ الفاتحہ ۔۴) 
گزشتہ سے پیوستہ … اور اس میں بھی کلام نہیں کہ محبوبانِ خدا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی عاجزانہ اور نیاز مندانہ التجاؤں کو ضرور شرف قبول بخشے گا۔ چنانچہ حدیث قدسی (جسے امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے) میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے ۔’’ اگر میرا مقبول بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں ضرور اس کا سوال پورا کروں گا۔ اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا‘‘۔ تو اب اگر کوئی شخص ان محبوبانِ اِلٰہی کی جناب میں خصوصاً حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثناء کے حضور میں کسی نعمت کے حصول یا کسی مشکل کی کشود کے لئے التماس دعا کرتا ہے تو یہ بھی استعانت بالغیر اور شرک نہیں بلکہ عین اسلام اور عین توحید ہے۔ ہاں اگر کسی ولی ، شہید یا نبی کے متعلق کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ مستقل بالذات ہے اور خدانہ چاہے تب بھی یہ کر سکتا ہے تو یہ شرک ہے اور ایسا کرنے والا مشرک ہے۔ اس حقیقت کو حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے نہایت بسط کے ساتھ اپنی تفسیر میں رقم فرمایا ہے۔ اور اس کا ماحصل مولانا محمود الحسن صاحب نے اپنے حاشیہ قرآن میں ان جامع الفاظ میں بیان کیا ہے :’’ اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے ۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستعمل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالیٰ سے ہی استعانت ہے۔‘‘اور اس طرح کی استعانت تو پاکان اُمّت کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔