ٹی آر ایس پارٹی اور حکومت میں مسلمان عہدوں سے محروم
احتجاج دور کی بات شکایت کی بھی ہمت نہیں
محمد نعیم وجاہت
اگزٹ پولس کے توقع کے مطابق ملک کے دارالحکومت دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج برآمد ہوئے ، ملک میں تمام پارٹیوں کو ناکام بنانے والی مودی ۔ شاہ کی جوڑی دہلی میں اروند کجریوال سے مات کھاگئی ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے جہاں شاندار کامیابی درج کی ہے وہیں بی جے پی کی شرانگیزی کو عوام نے مسترد کردیا ۔ کانگریس پارٹی دوسری مرتبہ دہلی میں اپنا کھاتہ کھولنے میں ناکام ہوگئی ۔ دہلی کے نتائج کے بعد پھر ایک بار علاقائی جماعتوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ۔ بی جے پی اور کانگریس کے متبادل کے طورپر ایک فرنٹ تشکیل دینے کے مباحث شروع ہوچکے ہیں اس کی قیادت کیلئے اروند کجریوال ، کے چندراشیکھر راؤ اور ممتا بنرجی کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں قائدین عوامی تائید حاصل کرتے ہوئے مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے تیسرے متبادل قیادت کیلئے اپنے آپ کو اہل اور موزوں ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جاری مباحث کو قطعی شکل دینے کیلئے کون پیشرفت کرتے ہیں اس کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ پارلیمنٹ کے عام انتخابات سے قبل چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے ملک کے مختلف ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے سیکولر نظریات رکھنے والے قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے تیسرے متبادل کیلئے ماحول بنانے کی کوشش کی تھی مگر اُنھیں وہ تائید حاصل نہیں ہوئی جس کی وہ توقع کرہے تھے ۔ ممتا بنرجی نے کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا ، اروند کجریوال نے ملاقات نہیں کی ، ملاقات کرنے والے دیوے گوڑا ، ہیمنت سورین ، اسٹالین نے کانگریس کے بغیر اتحاد کی کوشش کو تسلیم نہیں کیا ۔ اُڈیشہ کے چیف منسٹر نے بھی خاموشی اختیار کرلی ۔ ہمخیال جماعتوں سے مثبت ردعمل حاصل نہ ہونے پر چیف منسٹر کے سی آر نے قومی سیاست سے اپنی توجہہ ہٹاکر تلنگانہ اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کرواتے ہوئے انتخابات میں دوسری میعاد کیلئے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ کے سی آر اتنی بھاری کامیابی کے باوجود خاموش نہیں رہے اور کانگریس کے 12 اور تلگودیشم کے دو ارکان اسمبلی کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔
اب ملک کے حالت تبدیل ہورہے ہیں ۔ سیکولرازم کے نعرے نے کانگریس کو کمزور کردیا جبکہ ہندوتوا کے نعرے سے بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی وہیں ہندوتوا کا نعرہ اب بی جے پی کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔ دہلی کے عوام نے کام کی بنیاد پر کجریوال کو تیسری میعاد کیلئے منتخب کیا ہے ۔ گزشتہ سال دیڑھ سال میں بی جے پی ایک کے بعد ایک پانچ ریاستوں میں اقتدار سے محروم ہوگئی ۔ ملک کے دارالحکومت دہلی میں 22 سال سے اقتدار سے محروم رہنے والی بی جے پی نے اس مرتبہ کامیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔3 چیف منسٹرس ، 200 ارکان پارلیمنٹ ، تقریباً تمام مرکزی وزراء کو دہلی کے انتخابات میں جھونک دیا۔ مودی اور امیت شاہ نے انتخابی مہم چلائی اور گودی میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا ، سوشل میڈیا سے فائدہ اُٹھانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ فرقہ پرستی ، مذہب ، ہندوستان ۔پاکستان کا نعرہ دیا گیا یہاں تک کہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو دہشت گرد قرار دیا ۔ شاہین باغ کو بدنام کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ گولی مارو… کا نعرہ دیا گیا ۔ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کو ڈرانے ، دھمکانے کیلئے فائرنگ بھی ہوئی ۔ اس کے بعد بھی بی جے پی کے چانکیہ امیت شاہ کو مہاراشٹرا کے بعد دہلی میں بھی مات ہوگئی ۔ خاص بات یہ رہی کہ بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم میں شاہین باغ کو اصل موضوع بنایا ۔ قوم پرستی ، سرجیکل اسٹرائیک کو بھی خوب اُچھالا گیا ۔ دوسری جانب اروند کجریوال نے جب ضرورت پڑی طلاق ثلاثہ کی تائید کی ، آرٹیکل 370 کی تائید ، قومی مفادات پر کوئی توجہہ نہیں دی ۔ شاہین باغ کے مسئلہ کو ہرگز نہیں چھیڑا ۔ وہ ضرور ہندوؤں کے قریب ہوئے مگر مسلمانوں سے ہرگز دور نہیں ہوئے جس کے نتیجے میں 4 مسلم غلبہ والے اسمبلی حلقوں میں عام آدمی پارٹی کے امیدواروں نے کم از کم 30 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 70 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ عام آدمی پارٹی نے پانی ، برقی ، سڑک ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ کو اپنی انتخابی مہم موضوع بنایا جس کو عوام نے پسند کیا ۔
قومی متبادل کی قیادت کیلئے تینوں قائدین میں مسابقت شروع ہوگئی ہے ۔ بی جے پی سے تنہا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے والے کجریوال نے عوام کے سامنے اپنے آپ کو مودی کے متبادل کے طورپر پیش کردیا۔ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی بھی بی جے پی سے لوہا لے رہی ہے مگر جارحانہ موقف مغربی بنگال میں بی جے پی کو آکسیجن فراہم کررہا ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات سے اس کا انکشاف ہوا ہے ۔ رہی بات کے سی آر کی فی الوقت تلنگانہ میں کے چندرشیکھر راؤ بادشاہ بنے ہوئے ہیں ۔ قومی و علاقائی جماعتوں کے قائدین سے بھی کے سی آر کے بہتر تعلقات ہیں ۔ آندھراپردیش میں چندرابابو نائیڈو کی شکست سے قومی سطح پر کے سی آر کی امیج میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ تلنگانہ میں کے سی آر منادر پر کروڑہا روپئے خرچ کرتے ہوئے ہندوؤں کے دلوں میں اپنا مقام بنالیا ہے اور ساتھ ہی منادر کے پجاریوں کو سرکاری ملازمین کی طرز پر تنخواہیں دی جارہی ہے ۔ ساتھ ہی آبپاشی پراجکٹس کے نام ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر رکھتے ہوئے تلنگانہ میں بی جے پی کی ہندوتوا کا نرم گوشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ساتھ میں مجلس کو رکھتے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اپنا توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہورہے ہیں ، بڑے بڑے یگنہ کررہے ہیں ۔ صدر مجلس و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسدالدین اویسی نے کہا کہ اُنھیں چیف منسٹر کے ہندوازم پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ بی جے پی کے ہندوتوا پر اعتراض ہے ۔ مجلس کے علاوہ ٹی آر ایس کے سربراہ کے چندرشیکھر راؤ جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ رکھنے کی کامیاب حکمت عملی بھی اپنائی ہے ۔ اس کے علاوہ متحدہ مجلس عمل بھی فی الحال حکومت کے ساتھ ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو کیا ٹی آر ایس حکومت عملی جامہ پہنارہی ہے ۔ بجٹ میں 36 ہزار کروڑ روپئے کی کٹوتی کے بعد کیا ان وعدوں پر عمل آوری ممکن ہے ۔ کیا چیف منسٹر کے سی آر کی وعدوں پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ؟ یہ ایسے چبھتے ہوئے سوال ہیں جو حکمراں جماعت کے قائدین سُننا پسند نہیں کرتے ۔ ریاست میں کانگریس ، تلگودیشم اور اب ٹی آر ایس نے اقلیتوں کو کبھی اُبھرنے کا موقع نہیں دیا ہے ۔ کانگریس کے دور میں صرف ایک مرتبہ تقریباً دو درجن مسلمان اسمبلی کے لئے چن کر آئے تھے اس کے بعد سے اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے ۔ صرف پرانے شہر سے مسلم نمائندے چُن کر آرہے ہیں ۔ نئے شہر میں مسلمانوں کو ہر جماعت نے نظرانداز کیا ہے ۔ دہلی کی تازہ مثال سامنے ہے ۔ عام آدمی کے سربراہ اروند کجریوال نے بی جے پی کی فرقہ پرست مہم کے خلاف 5مسلمانوں کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ٹی آر ایس دو میعاد سے تلنگانہ میں برسراقتدار ہے پہلی میعاد میں ایک مسلم اُمیدوار کو جتایا تھا ، دوسری میعاد میں بھی اُسی مسلم رکن اسمبلی کو دوبارہ کامیاب بنایا ہے ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی لہر ہونے اور کئی مسلم غلبہ والے اسمبلی حلقے ہونے کے باوجود ٹی آر ایس نے مسلم امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے جراتمندی کا مظاہرہ نہیں کیا یہاں تک کہ میئرس اور ضلع پریشد صدورنشین کے انتخابات میں بھی ٹی آر ایس کو مکمل اکثریت ہونے کے باوجود ایک بھی میئر یا ضلع پریشد صدورنشین کا عہدہ مسلمانوں کو نہیں دیا گیا جبکہ جن کی ایک یا دو فیصد آبادی ہے اُنھیں ان اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ٹی آر ایس کی مسلم قیادت خاموش تماشہ دیکھتے رہی گئی کسی نے اس معاملے میں چیف منسٹر سے ملاقات کرنے اور مسلمانوں سے ہونیو الی ناانصافی پر آواز اُٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔ ٹی آر ایس کے ایک قائد نے بتایا کہ آواز اُٹھانے پر موجودہ قائدین کو عہدوں سے محروم ہونے کا خوف ہے اور جو قائدین عہدوں کی اُمید لگائے ہوئے ہیں اُنھیں عہدے ناملنے کا ڈر ہے ۔ اپنے آپ کو مسلمانوں کا چمپیئن قرار دینے والی جماعت جس کے قائدین کار کی اسٹیرنگ اُن کے ہاتھ میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں سارے ملک میں مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں مگر تلنگانہ میں اُن کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔
وعدہ تیرا وعدہ
٭ 12 فیصد مسلم تحفظات اور10 فیصد ایس ٹی طبقات تحفظات کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ 2.75 لاکھ ڈبل بیڈروم مکانات کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ ایک لاکھ ملازمتوں کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ ایک لاکھ فاضل ایکر اراضی کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ گھر گھر نلوں سے پانی کے وعدے کوپورا نہیں کیا گیا
٭ کسانوں کے قرضوں کی معافی سے متعلق وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ 3,015 روپئے بیروزگاری کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ کے جی تا پی جی مفت تعلیم کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ اجمیر میں تلنگانہ کے زائرین کیلئے رباط کے قیام کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ سرکاری ملازمین کے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر نظرثانی کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ ورلڈ کلاس اسلامک کلچر سنٹر کی تعمیر کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ بیروزگار اقلیتی نوجوانوں کو خود روزگار کی فراہمی کیلئے 80 فیصد سبسیڈی کے ساتھ قرضہ جات کی اجرائی کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ اردو ٹیچرس کے تقرررات کیلئے خصوصی ڈی ایس سی کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ جاریہ سال اقلیتی بجٹ میں 600 کروڑ روپئے کی کٹوتی کی گئی مابقی مکمل بجٹ بھی جاری نہیں کیا گیا
٭ ایس سی طبقات کو فی کس تین ایکر اراضی دینے کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ وقف ریکارڈ کو ضبط کرنے کے بعد ابھی تک مسئلہ کی یکسوئی نہیں کی گئی ۔
٭ اقلیتی اداروں کو منظورہ بجٹ کے باوجود رقمی اجرائی کا سلسلہ کافی سست ہے ۔
٭ یکخانہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وعدے کو پورا نہیں کیا گیا
٭ آلیر انکاؤنٹر کی رپورٹ ابھی تک منظرعام پر نہیں لائی گئی ۔