اک تنازعہ کوئی گرما رہے دونوں طرف
کیونکہ ایوانِ سیاست کو گوارہ شور ہے
تین طلاق بل ‘ مسلم خواتین کا استحصال
مرکز کی نریندر مودی حکومت نے ایک بار پھر تین طلاق بل کو لوک سبھا میں منظوری دلادی ہے ۔ اس بل کی راجیہ سبھا میں منظوری ماضی میں رکاوٹ کا شکار رہی تھی جس کی وجہ سے حکومت کی جانب سے آرڈیننس کی اجرائی کا سہارا لیا گیا تھا ۔ گذشتہ مرتبہ 2017 میں اس بل کو لوک سبھا میں منظور کیا گیا تھا اور راجیہ سبھا میں حکومت کو درکار عددی طاقت کی عدم دستیابی کی وجہ سے منظوری نہیں مل پائی تھی ۔ آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا ۔ گذشتہ لوک سبھا کی معیاد مکمل ہونے کے بعد لوک سبھا میں اسے دوبارہ پیش کرنا پڑا ہے اور اب یہاں منظوری کے بعد ایک بار پھر راجیہ سبھا کی رکاوٹ درپیش ہے ۔ تاہم بی جے پی کو امید ہے کہ اس بار راجیہ سبھا میں بھی حکومت اس بل کو منظور کروانے میں کامیاب ہوجائیگی ۔ ایوان میں حکومت کی عددی طاقت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو اس بل کی راجیہ سبھا میں راست مخالفت کرتے ہوئے مودی حکومت کی ناراضگی مول لینے کو تیار نہیں ہیں اور وہ راجیہ سبھا میں رائے دہی کے وقت غیر حاضر رہ سکتی ہے ۔ لوک سبھا میں بھی بعض جماعتوں نے یہی طریقہ کار اختیار کیا تھا ۔ اس کے علاوہ تلگودیشم کے تین ارکان راجیہ سبھا کو بی جے پی میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ اس سے جہاں اپوزیشن کی عددی طاقت گھٹی ہے وہیں حکومت کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ جماعتوں کی غیر حاضری سے بھی صورتحال مختلف ہوسکتی ہے ۔ تاہم جہاں یہ حکومت کیلئے آسان نہیںہے وہیں غیر ممکن بھی نہیں رہ گیا ہے ۔ علاوہ ازیں حکومت نے اس بل کے ذریعہ مسلم خواتین کو انصاف دلانے کی بات کی ہے جو سراسر دھوکہ اور فریب ہے کیونکہ اس بل کے ذریعہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کے ذریعہ جہاں بیک وقت تین طلاق دینے والے مسلم مرد کو جیل بھیجا جائیگا وہیں خواتین کو بے سہارا کردیا جائیگا ۔ خواتین کا آسرا چھین کر انہیں سہارا دینے اور تحفظ فراہم کرنے کی بات کرنا ایک بھونڈے مذاق سے کم نہیں ہے ۔ بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیلنے والی کچھ نام نہاد مسلم خواتین اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا سمجھنا ہی نہیں چاہتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس بل کے ذریعہ یہ کہا جارہا ہے کہ کوئی مسلم مرد اگر اپنی اہلیہ کو بیک وقت تین طلاق دیتا ہے تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی جبکہ شریعت میں اسے انتہائی قبیح عمل قرار تو دیا گیا ہے تاہم طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ مرکزی حکومت طلاق کو رد کرکے شریعت میں مداخلت کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہا جا رہا ہے اس جرم کی پاداش میں مرد کو تین سال قید کی سزا سنائی جائے گی ۔ اور اس کیلئے یہ ضروری بھی ہوگا کہ وہ ہر ماہ تین ہزار روپئے ماہانہ اپنی اہلیہ کو خرچ ادا کرے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر مرد جیل میں ہوگا تو اس کا ذریعہ آمدنی کیا ہوگا ؟ ۔ وہ کہاں سے اپنی مطلقہ بیوی کو نان و نفقہ ادا کریگا ؟ ۔ ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا محض تین ہزار روپئے میں خاتون کا اور اگر اس کے بچے ہوں تو ان سب کا گذارہ ہوجائیگا ؟ ۔ سب سے اہم اور قانونی نکتہ کی بات یہ ہے کہ کسی بھی فرد کو کسی جرم کے سرزد ہونے پر سزا دی جاتی ہے ۔ حکومت کے قانون کے مطابق بیک وقت تین طلاق کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اگر واقعی ایسا ہو اور طلاق واقع نہ ہو تو پھر سزا کس جرم میں دی جائے گی ؟ ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر حکومت توجہ دینے کو تیار نہیں ہے اور محض مسلم خواتین سے دکھاوے کی ہمدردی کرتے ہوئے ان کا استحصال کرر ہی ہے ۔ انہیں مسلم مردوں کے مقابل کھڑا کیا جا رہا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ ایسا کرتے ہوئے مستقبل میں انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے مجبور کردیا جائیگا ۔ اس حقیقت کو کچھ مٹھی بھر نام نہاد مسلم خواتین سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اب جبکہ یہ بل لوک سبھا میں منظور ہوچکا ہے اور راجیہ سبھا کی منظوری کا مرحلہ درپیش ہے ایسے میں جو اپوزیشن جماعتیں حکومت کی مخالفت کر رہی ہیں انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ راجیہ سبھا میں یہ بل منظور نہ ہونے پائے ۔ حکومت کی جانب سے کئی ہتھکنڈے اختیار کئے جائیں گے اس بل کی منظوری کیلئے تاہم اپوزیشن کو بھی چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ جو جماعتیں دیوار کی بلی بنی ہوئی ہیں اور مودی حکومت کی مخالفت سے گھبرا رہی ہیں ان کو بھی اپنا موقف واضح کرنا چاہئے ۔ مسلمان ان جماعتوں کے موقف سے ان کی سنجیدگی اور سکیورازم اور مسلمانوں سے ہمدردی کے دعووں کی حقیقت کو جانچ سکتے ہیں۔ محض زبانی جمع خرچ پر بھروسہ کرنے کا سلسلہ اب ختم کرنا ہوگا ۔