جائیداد ٹیکس وصولی میں بلدیہ کی چستی و پھرتی

   

حساب کتاب بتانے میں بلدیہ ناکام، جی ایچ ایم سی کے خزانے میں غبن!
حیدرآباد۔ 29 اکتوبر (سیاست نیوز) بلدیہ عوامی مسائل پر ہی نہیں بلکہ سرکاری معاملات کی یکسوئی کے تعلق سے بھی شاید اپنی روش نہیں بدلتا۔ 400 سالہ قدیم تاریخی شہر حیدرآباد جو میونسپل کارپوریشن سے گریٹر حیدرآباد میں بدل گیا لیکن تعجب کہ ابھی تک بلدیہ کے یہاں ٹیکس کا کوئی واضح ریکارڈ نہیں آیا۔ تجارتی علاقوں اور رہائشی علاقوں سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی کیا مقدار ہے اس کا پتہ لگانے میں بلدی حکام مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ جس کے سبب کئی تجارتی ادارے ابھی بھی رہائشی ٹیکس ادا کرتے ہوئے بلدی خزانے کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ انکشافات کمشنر کے حالیہ اقدام کے وجہ منظر عام پر آئے۔ حالیہ دنوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے تجارتی علاقوں کی جائیدادوں پر 5 فیصد ٹیکس عائد کیا اور تجارتی سرگرمیوں کے لحاظ سے حکومت نے اس سڑکوں اور علاقوں کو کمرشیل رتبہ دیا جس کے بعد جی ایچ ایم سی کے کمشنر لوکیش کمار نے سڑکوں کا سروے کروایا۔ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ چند بل کلکٹرس اور ٹیکس انسپکٹر کی بدعنوانیوں کے سبب ایسے حالات پیدا ہوئے۔ سروے کے مطابق شہر میں جن مکانات سے ٹیکس حاصل ہوا ہے ان کی تعداد (17) لاکھ ہے۔ (118) کمرشیل علاقوں سڑکوں پر موجودہ مکانات کی تعداد (40) ہزار ہے۔ سروے کے مطابق ٹیکس ادا نہ کرنے والے (2) ہزار کم ادا کرنے والے (10) ہزار اس کے علاوہ کمرشیل تجارتی مصروفیت کے باوجود رہائشی ٹیکس ادا کرنے والے (2) ہزار کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ شہر میں کتنے مکانات ہیں اور ان سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا کوئی حساب نہیں بلکہ ہر سال عہدیدار صرف ٹیکس کا نشانہ بڑھاتے ہیں۔ عام طور پر سروے ٹیکس انسپکٹرس اور بل کلکٹرس کے ذریعہ کروایا جاتا ہے لیکن لوکیش کمار نے اس اقدام میں احتیاط کرتے ہوئے سروے انجینئرنگ اور ٹاؤن پلاننگ کے عہدیداروں سے کروایا اور تمام تر تفصیلات کو ٹیاب میں درج کروایا گیا۔ زیر تعمیر عمارتوں، موجودہ عمارتوں میں کمرشیل اور رہائش کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اجازت حاصل کرنے والی بغیر اجازت اور اجازت کے باوجود زائد منزلیں تعمیر کرنے والی تمام عمارتوں کو ریکارڈ کیا گیا۔ امکان ہے کہ خلاف ورزی کرنے والی عمارتوں کو عنقریب نوٹسیں جاری کی جائیں گی۔ ع