جامعہ ملیہ اسلامیہ تشدد کے ویڈیوز

   

دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تشدد کے دو ماہ بعد ایک ویڈیو وائرل کردی گئی جس میں دہلی پولیس کو جارحانہ طور پر جامعہ کی لائبریری میں داخل ہو کر مطالعہ میں مصروف طلباء پر لاٹھیاں برساتے دیکھا جاسکتا ہے ۔ شہریت ترمیمی قانون سی اے اے کے خلاف جامعہ میں احتجاج کرنے والے طلباء کو نشانہ بنانے والا اس دلسوز ویڈیو کے بعد پولیس نے یہ بیان دیا کہ طلباء کے ہاتھوں میں پتھر تھے اور طلباء نے ہی ان پر حملے کیے ۔ دہلی پولیس نے میڈیا چیانل کو ایک ویڈیو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جامعہ کی لائبریری میں طلباء نے ہی انہیں نشانہ بنایا اور ان کے ہاتھوں میں پتھر تھے جب کہ فارنسک معائنہ سے انکشاف ہوا ہے کہ ایک طالب علم کے ہاتھ میں ورلیٹ تھے اس حقیقت کو توڑ مروڑ کر میڈیا نے پولیس کی اسٹوری کو اس قدر نفرت انگیز طریقہ سے پیش کیا کہ گویا جامعہ کے طلباء نے ہی پولیس کو نشانہ بنایا ہے ۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی کہاوت اب ان دنوں ہر جگہ دہرائی جارہی ہے ۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مختلف عنوانات سے ستایا اور پھنسایا جارہا ہے ۔ جامعہ میں پولیس نے اپنی کرتوتوں کو چھپانے کے لیے من گھڑت کہانی بنائی ۔ اسے گودی میڈیا کے حوالے کردیا ۔ یہ ایسی کارروائیاں ہیں جو کسی بھی صورت ملک کے پرامن ماحول کے لیے اور پولیس کی نیک نامی کے لیے مناسب نہیں ہیں ۔ پولیس کو قانون کی حفاظت اور امن و ضبط کی برقراری کے لیے کام کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ رول ادا کرنا چاہئے لیکن پولیس جانبداری کا مظاہرہ کرے تو پھر ملک کے حالات ایک دن اس دہانے پر پہونچ جائیں گے جہاں ہر ایک کو نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ حقائق پر پردہ ڈال کر من گھڑت کہانیاں بنانے کے نتائج اگر اُلٹے نظم و نسق کے لیے پریشان کن بن جائیں تو پھر حالات کو معمول پر لانے میں مشکلات درپیش ہوں گی ۔ جامعہ میں تشدد اور پولیس کی زیادتیوں کا شکار ہونے والے طلباء کو ہی پولیس نے جھٹلایا ہے تو یہ ملک کے مستقبل کے ساتھ گھناونا ڈرامہ کیا جارہا ہے ۔ ملک کی نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں حکومت اور پولیس نے اپنی شبیہہ بگاڑ لی ہے ۔ دہلی پولیس کے خلاف جامعہ نے شکایت بھی درج کروائی تھی لیکن کوئی ایف آئی آر درج نہیں کیا گیا ۔ اب یونیورسٹی کو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے عدالت سے رجوع ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک جامعہ کو اپنی شکایت درج کرانے کے لیے عدلیہ کا سہارا لینا پڑرہا ہے جب کہ محکمہ پولیس اپنی ذمہ داری اور فرائض سے غفلت کا شکار بنتی جارہی ہے ۔ 15 دسمبر کو پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جس طریقہ سے کارروائی کی ، وہ صدمہ خیز ہے جس کی شدید مذمت بھی کی گئی ہے ۔ لیکن پولیس کو اپنی ان حرکتوں سے ہونے والی بدنامی کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ 5 جنوری کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے واقعہ پر بھی پولیس کا رول تکلیف دہ تھا ۔ بلا شبہ پولیس کا رول امن کے قیام کو یقینی بنانا ہے ۔ اسے خاطیوں اور بے قصور افراد میں فرق محسوس کرتے ہوئے کارروائی کرنے اور منصفانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن اس نے اپنے رویہ اور طرز عمل سے محکمہ پولیس کی نیک نامی کو بدنام کردیا ہے ۔ جامعہ تشدد اور پولیس کی کارروائیوں کے ویڈیوز منظر پر آچکے ہیں ۔ ہر ویڈیو ایک الگ سچائی بیان کرتا ہے ۔ اب جب کہ یہ کیس کرائم برانچ کی نگرانی میں ایس آئی ٹی کے تحت آیا ہے تو غیر جانبدارانہ تحقیقات کرتے ہوئے جو بھی خاطی پایا جائے اس کے خلاف مناسب کارروائی کی جانی چاہئے ۔ دہلی پولیس کا رول مشتبہ بن چکا ہے ۔ ان ویڈیوز میں دکھائی گئی پولیس کی کارروائیوں پر اگر پردہ ڈالتے ہوئے تحقیقات کی گئی تو پھر یہ سارا عمل فضول اور بے فیض ثابت ہوگا ۔۔