جامعہ نظامیہ علم و روحانیت کا مینارِ نور

   

Ferty9 Clinic

حافظ محمد صابر پاشاہ
ہندوستان کی علمی و دینی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جن کی روشنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی ماند نہیں پڑتی۔ انہی درخشاں ناموں میں سرِفہرست حضرت شیخ الاسلام والمسلمین عارف باللہ الامام الحافظ شاہ محمد انواراللہ فاروقی الملقب بہ فضیلت جنگ ہے ۔ یہ وہ مردِ درویش تھے جنہوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں زوال پذیر علمی فضا میں علم و عرفان کا ایسا چراغ روشن کیا جس کی لو آج بھی پُرنور ہے۔۱۹ ذی الحجہ ۱۲۹۲؁ ھ میں جب ملتِ اسلامیہ ہند علمی و فکری انتشار کے دور سے گزر رہی تھی،حضرت شیخ الاسلامؒ نے خدا پر توکل اور اخلاصِ نیت کے سہارے ایک ایسی دانش گاہ کی بنیاد رکھی جسے آج دنیا جامعہ نظامیہ کے نام سے جانتی ہے۔یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ ایک روحانی تحریک، ایک فکری انقلاب اور ایک اصلاحی مرکز تھا جس کا مقصد امتِ مسلمہ کو دوبارہ علم و عمل کے راستے پر لانا تھا۔حضرتؒ نے اپنے خونِ جگر سے اس پودے کو سینچا، چالیس برس تک شب و روز اس کی آبیاری کی، اور اسے ایسا تناور شجر بنایا جس کے سائے میں آج بھی علم و عرفان کے متلاشی سکون پاتے ہیں۔
آپ کا سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتاہے۔ ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی ۔ پانچ برس کی عمر میں قرآن پاک ناظرہ ختم کیا، گیارہ بر س کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ۱۲۸۲؁ھ میں جب آپ کی عمر صرف ۱۸برس تھی توآپ حیدرآباد تشریف لائے اور مولاناعبد الحئی فرنگی محلیؒ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ تفسیر، حدیث، فقہ ، ادب اور معقولات کے جید عالم تھے۔ آپ اپنے اساتدہ کا بیحد ادب کرتے تھے۔ آپکی بے مثل وخداداد ذہانت وذکاوت اور علمی استدادکے خود آپ کے اساتذہ بھی معترف تھے ، اور آپکے بے پناہ علمی ذوق کو دیکھتے ہو ئے آپکے اساتذہ بھی باوجود کثرت مشاغل آپ پر اپنی خاص عنایت رکھتے تھے۔ آپ نے علوم شریعت کی تکمیل وتحصیل کے بعد اپنے والد محترم حضرت ابومحمد شجاع الدین علیہ الرحمہ سے سلوک کی تکمیل فرمائی اور سلاسل جملہ میں بیعت کی پھر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ سے مکہ معظمہ میں موسم حج میں بیعت مکرر فرمائی اور منازل سلوک کی تکمیل بھی فرمائی۔ آپکو بعمر۳۰ سال حرمین شریفین کی زیارت و سعادت حج حاصل ہوئی۔ آپ ایک بلند پایہ اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ آپ کے فارسی و اردو اشعارپر مشتمل مجموعہ کلام ’’شمیم الانوار‘‘ کے نام سے منصہ شہود پرآچکا ہے۔ چونکہ آپکی مصروفیت بے پناہ تھی تصنیف وتالیف، درس وتدریس اور دیگر مشاغل کی وجہ سے آپ شعر گوئی پر زیادہ توجہ نہیں دیا کرتے تھے ، اگر عدیم الفرصتی آپکی شعر گوئی میں آڑے نہ آتی تو یقینا آپ کے قلم سے مزید اعلیٰ پائے کے اشعار ملتے اور صاحبِ ذوق حـضرات کیلئے باعث تسکین ہوتے اور اردو ادب کے سرمایہ میں گرانقدر اضافہ کا موجب بنتے۔
آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں میں گرمیٔ ایمان کے جذبے کو تازہ کیا، بقول ڈاکٹر عبدالحمید اکبر کہ آپ نے ’’حریفانِ اسلام کے مقابلے میں جہاد بالقلم کیا‘‘ ۔ شیخ الاسلام نے اپنے مشہور زمانہ رسالہ ’’مقاصد الاسلام ‘‘ کے ذریعہ حق کو واضح کیا ۔گیار حصوںپرمشتمل طویل مقاصدالاسلام ، ایک عظیم علمی کارنامہ اور ادبی نکتہ نظر سے ایک شاہکار رسالہ ہے۔ شیخ الاسلامؒ نے تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد، منطق، فلسفہ، تاریخ، ادب، تصوف اور حکمت کے میدانوں میں ایسی روشنی پھیلائی کہ علم کا دریا گویا ایک قطرے میں سمٹ آیا۔ان کی مسندِ درس سے نکلنے والے علمائے ربانیین نے برصغیر کے طول و عرض میں دینِ اسلام کی خدمت، تبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ کے جو چراغ جلائے وہ آج بھی روشن ہیں ۔ جامعہ نظامیہ آج بھی علم، خدمت اور روحانیت کا وہ مینار ہے ، جس کی روشنی زمان و مکان کی سرحدوں سے ماورا ہے۔