جامع مسجد پھر ایک مرتبہ ہندوستانیوں کی آواز بن گئی

   

نیلم رائے
ہندوستان کی تاریخ میں دارالحکومت دہلی کے چند اہم مقامات اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں اور ان ہی تاریخی مقامات میں دہلی کی جامعہ مسجد بھی ہے جو ہندوستان کی آزادی کی جنگ کے مناظرکی شہادت دیتی ہے اور اب وہ بی جے پی حکومت کی عوام دشمن پالیسوں اور کالے قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کی شاہد بنی ہوئی ہے۔دہلی کی جامع مسجد اپنی ایک روشن تاریخ رکھتی ہے اور ماضی میں اس نے ہندوستانیوں کی جدوجہد دیکھی ہے اور اب اس شہریت قانون کے خلاف پورے ملک میں ہو رہے مظاہروں کے دوران بھی اس کی اہمیت ظاہر ہو رہی ہے۔ جامع مسجد کے اطراف اور اس کی سیڑھیوں پر روزانہ ہزاروں لوگ پہنچ کر شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اپنا احتجاج درج کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران ایک قابل ذکر مظاہرہ قدیم دہلی کے باشندگان کر رہے ہیں جو اپنے پرامن مظاہرے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ نوجوان طبقہ پر مشتمل یہ مظاہرہ روزانہ تقریباً 8بجے رات سے 9 بجے تک ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کی تعداد بھی خاطر خواہ ہوتی ہے۔جامع مسجد میں روزانہ جمع ہونے والے مظاہرین میں سے ایک نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ گزشتہ 31 دسمبر سے ہم لوگ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر پرامن احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف اپنی آواز اس لیے اٹھا رہے ہیں کیونکہ نہ صرف یہ آئین کے خلاف ہے بلکہ ہندوستان کے حقیقی باشندوں کو بھی باہر کا راستہ دکھانے والا ہے۔ ایک دیگر احتجاجی نے مظاہرے کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ روزانہ جامع مسجد پر کم و بیش 400 افراد جمع ہوتے ہیں اور یہ مظاہرہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لے لیا جاتا۔ این آر سی کیخلاف بھی ہم آواز اٹھا رہے ہیں کیونکہ اس کے منفی اثرات آسام میں پوری طرح سے ظاہر ہو چکے ہیں۔قدیم دہلی کے نوجوانوں کے ذریعہ ہو رہے اس ایک سے ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل مظاہرہ میں شامل لوگوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ جیسے جیسے لوگوں کو پتہ چل رہا ہے کہ یہاں قدیم دہلی کے لوگ شام کے اوقات جمع ہو رہے ہیں، وہ بھی یہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 31 دسمبر سے اب تک ہوئے مظاہروں میں تین دن کینڈل مارچ بھی نکالے گئے۔ 8 اور 15 جنوری کو لال کنواں سے جامع مسجد کے لیے کینڈل مارچ نکلا جب کہ پہلا کینڈل مارچ 2 مارچ کو تراہا بیرم خان سے نکالا گیا تھا۔ کینڈل مارچ کے دوران غیر مسلم افراد بھی کافی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔ کینڈل مارچ میں شامل ایک شخص نے کہا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ کینڈل مارچ میں اس لیے شامل ہو رہے ہیں تاکہ مودی حکومت تک یہ بات پہنچے کہ ہم شہریت قانون میں ترمیم سے خوش نہیں ہیں، ہم مذہب کی بنیاد پر کسی بھی تفریق کو پسند نہیں کرتے اور ہمیں کوئی بھی ایسی پالیسی منظور نہیں جو ہندو-مسلم بھائیوں کو لڑانے کی کوشش کرے۔15 جنوری کو لال کنواں سے جامع مسجد کے لیے نکالا گیا کینڈل مارچ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل تھا۔ اس کینڈل مارچ کی خاص بات یہ تھی کہ جامع مسجد پہنچ کر مظاہرین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبا کے خلاف پولس ظلم کو بھی یاد کیا۔ واضح رہے کہ ٹھیک ایک ماہ قبل یعنی 15 دسمبر کو جامعہ کے طلبا پر پولس نے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہو کر قہر ڈھایا تھا۔ قدیم دہلی کے باشندوں اور کچھ دیگر مقامات سے جمع لوگوں نے جامع مسجد پر جمع ہو کر کچھ ڈرامے بھی پیش کیے جن میں ایک ڈرامہ جامعہ تشدد واقعہ پر مبنی تھا۔ اس ڈرامہ میں جامعہ کی بہادر طالبہ لدیدہ کے اس ویڈیو کو ڈرامے کے طور پر پیش کیا گیا جس میں وہ بے انتہا ہمت کے ساتھ اپنے ایک دوست کو پولس کے ڈنڈے سے بچاتی ہوئی نظر آتی ہے اور پورے ملک میں بہادری کی ایک علامت بن جاتی ہے۔ روزانہ ہو رہے اس مظاہرے کے ایک انتظام کار نے کہا ہے کہ ہم لوگ پہلے جامع مسجد گیٹ نمبر ایک کے قریب انسانی زنجیر بناتے تھے لیکن پولیس کو اعتراض ہوا اور انھوں نے کہا کہ اس طرح مظاہرہ جاری رہا تو لوگوں کو حراست میں لے لیا جائے گا۔ بعد ازاں ہم لوگوں نے بات چیت کر کے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ’خاموش مظاہرہ کا منصوبہ بنایا جس میں جامع مسجد انتظامیہ کی اجازت بھی لے لی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ عشاء کی نماز کے بعد ہم جامع مسجد کی سیڑھیوں پر پلے کارڈس اور بینر وغیرہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں جس میں شہریت قانون و این آر سی کی مخالفت والے الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ آخر میں ہم کھڑے ہو کر قومی ترانہ (جن گن من)پڑھتے ہیں اور پھرجے ہند بول کر تقریباً 9 بجے اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔واضح رہے کہ قدیم دہلی کے نوجوان خواتین و مردوں پر مشتمل روزانہ ہونے والا یہ خاموش مظاہرہ اپنی آواز بلندی کے ساتھ اٹھا رہا ہے اور انتہائی منظم انداز میں بغیر کسی کو تکلیف پہنچائے ہو رہا ہے۔ قدیم دہلی سے نکالے گئے اب تک تین کینڈل مارچ کے لیے باضابطہ پولیس کی اجازت بھی لی گئی تھی اور جامع مسجد کا راستہ طے کرتے ہوئے ٹریفک نظام میں کوئی خلل پیدا نہ ہو، اس کا بھی خاص خیال رکھا گیا جارہا ہے۔