شہادت
یکم ؍ محرم الحرام ۲۴ھ
آپؓ کا اسم مبارک عمر بن خطاب ہے، لقب فاروق ، کنیت ابوحفص نسب نویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے اور اُن کی ولادت واقعۂ فیل کے ۱۳ برس بعد ہوئی اور نبوت کے چھٹے سال ۳۳ برس کی عمر میں اسلام لائے ۔ خانۂ کعبہ میں سب سے پہلے اسلام کا نام آپؓ ہی نے بلند کیا ۔ آپؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ حضور اکرم ﷺ کے نکاح میں آئیں اور دورِ خلافت میں حضرت علیؓ کی صاحبزادی سے حضرت عمرؓ کا نکاح ہوا تھا ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق قرآن مجید کی ۲۷ آیات حضرت عمرؓ کی رائے پر نازل ہوئیں اور حدیث شریف میں حضوراکرم ﷺ نے فرماےا : ’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ‘‘ (ترمذی) ۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا : ’’اے وہ ذات جو رسول اللہ کے بعد اُمت میں سب سے بہتر ہے ! ‘‘تو ابوبکرؓ نے کہا سنیں : اگر آپؓ یہ کہتے ہیں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عمر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ! ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’گزشتہ اُمتوں میں (نبیوں کے علاوہ ) محدّث ( سمجھائے ہوئے، کلام کئے ہوئے ) ہوا کرتے تھے ، پس اگر میری اُمت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہیں! ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ( معراج میں ) جنت میں داخل ہوا ، پس اچانک میں سونے کے ایک محل کے پاس تھا، میں نے پوچھا : ’’یہ کس کا محل ہے ؟ ‘‘ فرشتوں نے کہا: ’’ایک قریشی جوان کا ! ‘‘ ۔ میں نے گمان کیا کہ وہ قریشی جوان میں ہوں ، چنانچہ میں نے پوچھا : ’’وہ کون ہے ؟‘‘ فرشتوں نے کہا : ’’عمر بن الخطاب‘‘ ۔ آپؓ نے ۱۰ سال ۶ ماہ ۴ دن تک ۲۲لاکھ مربع میل زمین پر اسلامی خلافت قائم کی ۔ آپؓ کے دور میں ۳۶۰۰ علاقے فتح ہوئے اور ۹۰۰ جامع اور ۴۰۰۰ عام مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کے دن نماز فجر میں ابو لؤ لؤ فیروز مجوسی کافر نے آپؓ کو شکم میں خنجر مارا اور آپؓ یہ زخم کھاکر یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو شرفِ شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔ بوقت وفات آپ کی عمر شریف تریسٹھ برس تھی ۔ حضرت صہیبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور روضۂ مبارک کے اندر حضرت صدیق اکبرؓ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے ۔ ( تاریخ الخلفاء )