جبری تبدیلی مذہب

   

خودداریوں نے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
ہم پھر کبھی نہ اس کی طرف لوٹ کر گئے

مذہب ہر انسان کا انفرادی مسئلہ ہے ۔ ملک کے دستور میں ہر شہری کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اور اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرسکتا ہے اور اس کو اختیار کرسکتا ہے ۔ اس معاملے میںکسی کو دباؤُ ڈالنے یا دھمکانے یا زبردستی کسی کا مذہب تبدیل کروانے کی کوئی اجازت نہیںہے اور ایسا کرنا ایک جرم بھی ہے ۔ آج ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی واضح کردیا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب ایک سنگین مسئلہ ہے اور اگر اس پر فوری روک نہیںلگائی گئی اور اس پر قابو نہیںپایا گیا تو یہ ملک کی سکیوریٹی اورسلامتی کیلئے خطرہ بن سکتا ہے اور اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جبری تبدیلی مذہب پر مرکزی حکومت کو مداخلت کرنے کیلئے بھی کہا ہے اور مرکز کی جانب سے عدالت میں اس پر ایک حلفنامہ بھی داخل کیا جائیگا ۔ در اصل تبدیلی مذہب کا کسی کو اختیار نہیں ہے ۔ اگر کوئی شہری اپنی مرضی اور اراد ے سے ہوش و حواس میںرہتے ہوئے اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا اپنا اختیار ہوسکتا ہے یہ اس کی اپنی مرضی ہوسکتی ہے لیکن کوئی دوسرا اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا ۔ نہ کسی پردباؤ ڈالا جاسکتا ہے اور نہ کسی کو دھمکایا جاسکتا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں یہ واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی کی مدد کرنے کے نام پر یا کسی اور بہانے سے لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے ۔ یہ دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں کہ ایک مخصوص مذہب اختیار کرنا ہوگا بصورت دیگر اس ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ سپریم کورٹ میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے ۔ اس پر قابو پایا جانا چاہئے ورنہ ملک کی سلامتی کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور لوگوںکے بنیادی حقوق بھی تلف ہوسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ جبرا کسی کا مذہب تبدیل کروانا انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ در اصل جنونیت کا شکار ہیں ۔
ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے ۔ یہاں عوام کسی بھی مذہب کو اختیار کرسکتے ہیں اور کسی بھی مذہب پر عمل کرسکتے ہیں۔ حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے ۔ ہر مذہب کا یہاں مساوی احترام کیا جاتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والوںکو مساوی حقوق بھی دئے گئے ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں بھی مساوی ہیں ۔ کسی کو بھی ملک کے دستور اورقانون کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ تاہم قبائلی اور دور دراز کے علاقوں میں یہ واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ لوگوں کا مذہب نت نئے انداز سے تبدیل کروایا جا رہا ہے ۔ کئی ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ انہیں لالچ بھی دیا جا رہا ہے ۔ ان کی مدد کرنے کے نام پر بھی ان کے مذہب کو تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ بعض معاملات میںدھمکانے کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ سارے واقعات انتہائی افسوسناک اور ملک کے دستور اور قانون کے مطابق درست نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں بھی اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ کسی پر جبر کیا جائے ۔ زبردستی یا خوف کے عالم میں کسی کا مذہب تبدیل کروایا جائے ۔ نہ ملک کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ملک کادستور اجازت دیتا ہے ۔ کوئی مذہب بھی اس سے اتفاق نہیںکرتا تو ایسا کرنے والوںکو خود سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے نہ ملک کے مفاد میں کام کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی مذہب کی واقعتا پیروی کررہے ہیں۔ مذہب کا تعلق کسی زبردستی ‘ کسی لالچ ‘ کسی ڈر یا خوف سے ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
یہ ہر ایک کا اپنا شخصی اور ذاتی معاملہ ہے اور کسی اور کی رائے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے ۔ سپریم کورٹ کی رائے کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے عدالت میںحلفنامہ داخل کیا جائیگا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے ۔ اس کے تمام عوامل کا جائزہ لے ۔ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک کے دستور اور قانون میں جو گنجائش فراہم کی گئی ہے اس کا کوئی استحصال نہ کرنے پائے ۔ اس کیلئے کسی تنظیم یا ادارے یا گروپ کو اختیار نہ دیا جائے ۔ واضح ہدایات جاری کی جائیں تاکہ کسی کو بھی مذہب یا مذہب کے نام پر کسی کے استحصال کا موقع ملنے نہ پائے ۔