راستے میں بجھ نہ جائیں آرزوؤں کے چراغ
ذکر منزل کارواں در کارواں کرتے چلو
!…جب حکمراں ہی دشمن بن جائے
مرکز کی حکومت نے ہندوستان کو ترقی اور عالمی تقاضوں کے معاملوں میں بہت پیچھے لے جانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ ہندوتوا نظریہ کو روبہ عمل لانے کی دیرینہ پالیسی کو نافذ کرنے کی اندھی کوشش کے نتائج کیا ہوں گے یہ سوچا ہی نہیں۔ ایک ایسے وقت ساری دنیا میں عالمگیریت کا دور فروغ پارہا ہے۔ ایک ملک کو دوسرے ملک کے درمیان کئی شعبوں میں رابطہ کاری کے ذریعہ ترقی کے میدان میں بہت بڑی جہت لگانے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہاں ہندوستان کے تنگ نظر، فرقہ پرست سیاستدانوں نے ملک کو تاریک سرنگ کی جانب لے جانے کا بندوبست کیا ہے۔ عوام کی نقل و حرکت آزادانہ ہونی چاہئے۔ ہر ایک کو اس طرح کی آزادی ملنی چاہئے جس سے کہ وہ بنی نوع انسان کی خدمت کرتے ہوئے اس دنیا میں امن و امان، سکون، خوشحالی اور بھائی چارہ کو فروغ دے سکے لیکن یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ہندوستان کی سرزمین کو ایک مخصوص طبقہ کے خلاف زہر اگلنے والی بنائی جارہی ہے۔ ہندوستان شاید آخری ملک ہوگا جہاں انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے دینے میں بھی امتیاز برتا جائے گا۔ ایک طرف حکمراں طاقتیں اپنے ناپاک منصوبوں کو اندھادھند طریقہ سے نافذ کرتے جارہے ہیں تو دوسری طرف عوام میں سے ہر کوئی اپنی انفرادی حیثیت میں اتنا ہی ظالم ہے یا اس سے بھی بڑھ کر ظالم ہے کیونکہ اس نے خود کو اس قدر کمزور کرلیا ہے کہ وہ اپنے سامنے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے سے بھی گریز کررہا ہے۔ اگر عوام بالخصوص ہندوستان کے مسلمان آئینہ کے سامنے کھڑے ہوجائیں، اپنے گریباں میں جھانکیں تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔ ہم خود کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہندوستانی مسلمان کہنے کو تو ایک باشعور قوم ہے لیکن حق کیلئے میدان عمل میں آنے سے گریز کرتے ہیں یا اس خام خیالی میں رہتے ہیں کہ انہیں ان کا حق مل کر رہے گا۔ مسلمانوں کی اس بے خبری اور بے پرواہی نے انہیں باشعور انسان بننے نہیں دیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو اس بات کا اندازہ ہیکہ مسلمانوں کو نہ تو عقل ہے نہ فکر ہے نہ شعور ہے یہ لوگ نادانوں کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں۔ اگر ہندوستان میں ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جائے تو وہ اف تک نہیں کریں گے۔ مسلمانوں میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں زعم ہیکہ وہ قابل ہیں، مالدار ہیں، پڑھے لکھے ہیں، صاحب حیثیت ہیں، ڈگریاں پاس رکھتے ہیں۔ عالم ہیں لیکن ذرا آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے، کان کھول کر نہیں سنتے کہ آخر یہ حکمراں طاقتیں ان کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔ ملک کے دیگر شہری ہمیں دیکھ کر منہ پھیرلیتے ہوئے ہجومی تشدد کو ہوا کیوں دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان سے شہریت ترمیمی بل کو منظور کروالیا گیا اور صدرجمہوریہ کی مرضی بھی حاصل کرلی گئی۔ اس بل کے خلاف چند ایک ریاستوں کے چیف منسٹروں نے آواز اٹھائی ہے اور بعض حصوں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔ جمعہ کے دن مساجد کے باہر احتجاج کرتے ہوئے بل کے غیرقانونی ہونے کا ادعا کرتے ہوئے بل کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی آواز اور احتجاج دونوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گذشتہ ایک ہفتہ سے آسام اور تریپورہ جل رہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے اور عوام بالخصوص مسلمان صرف علامتی احتجاج کرکے خاموش ہوگئے۔ یہی وجہ ہیکہ خرابیاں، تباہیاں اور نہ جانے کیا کچھ ہمارے دروازوں پر دستک دینے تیار کھڑی ہیں۔ اس کے بعد اس معاشرہ میں روشنی نظر نہیں آئے گی۔ جس ملک میں حکمراں طبقہ عوام کا مسیحا بن کر رہنیے کے بجائے دشمن بن جائے تو موت کے راستے کشادہ ہوتے جائیںگے اور ہر طرف موت رقص کررہی ہوگی۔
وزیراعظم برطانیہ بورس جانسن کی کامیابی
برطانیہ میں گذشتہ پانچ سال کے دوران ہونے والے تیسرے انتخابات کے بعد وزیراعظم کی حیثیت سے بورس جانسن کی کامیابی نے یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی کی قطعی راہ ہموار کردی ہے۔ برطانیہ میں 2017ء کے انتخابات کے بعد یہ عام انتخابات 2022ء میں ہوتا تھا لیکن برطانیہ کے سیاسی حالات اور بریگزٹ مسئلہ نے حکمراں اپرٹی کو داخلی طور پر کمزور کردیا تھا۔ اب جبکہ بورس جانسن دوبارہ وزیراعظم بن گئے ہیں تو بریگزٹ معاہدہ کے مستقبل کے بارے میں بھی واضح فیصلہ سامنے آئے گا کیونکہ بورس جانسن نے یوروپی یونین کو خیرباد کہہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ برطانیہ میں دو پارٹیاں کنزرویٹیو پارٹی اور لیبر پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ تھا لیکن کنزرویٹیو پارٹی کے تحت برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن کو عوام نے خط اعتماد دیا ہے تو یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی یقینی ہوگی۔ لیبر پارٹی کا موقف یہ ہیکہ یوروپی یونین کے ساتھ بریگزیٹ معاہدہ پر نظرثانی کی جائے اب اس طرح کی نظرثانی کی گنجائش ختم ہوگئی۔ بورس جانسن کو بریگزٹ معاملہ پر شروع سے برتری حاصل تھی اب کامیاب ہونے کے بعد وہ بریگزٹ معاہدہ پر عملدرآمد کرواسکتے ہییں۔ برطانیہ کے عوام نے گذشتہ دو انتخابات میں منقسم رائے دہی کے ذریعہ ایک غیرمستحکم حکومت بنائی تھی۔ اس مرتبہ برطانوی پارلیمانی انتخابات کے نتائج اگزٹ پولس سے ہٹ کر ہی آتے ہیں۔ مارگریٹ تھیاچر کے بعد سے یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ان انتخابات میں بورس کی کامیابی کے بعد غیریقینی ختم ہوجائے گی اور ماباقی دنیا کو بھی فائدہ ہوگا۔ لیبر پارٹی کے روایتی مضبوط گڑھ میں بھی کنزرویٹو پارٹی کی کامیابی عوام کی ذہنی تبدیلی کا بڑا ثبوت ہے۔