جب ہمدردی دوسرے کریں اور اپنے ہی …!

   

محمد مصطفی علی سروری
تبریز انصاری کا تعلق جھارکھنڈ کے سرائے کیلا گائوں سے ہے۔ تبریز عید الفطر کے موقع پر پونے سے اپنے گائوں آیا ہوا تھا۔ ابھی اپریل 2019ء میں ہی تبریز کی شائستہ پروین کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ کسی کام سے وہ جمشیدپور گیا تھا۔ 17؍ جون کی رات تقریباً 10 بجے تبریز انصاری نے اپنی بیوی کو فون کیا اور بتلایا کہ وہ جمشیدپور سے گھر روانہ ہو رہا ہے۔
جمشیدپور سے تبریز انصاری کا گھر تقریباً 42 کیلومیٹر دور واقع سرائے کیلا میں تھا اور یہ راستہ دیڑھ سے دو گھنٹے میں طئے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پوری رات گذر جاتی ہے، تبریز انصاری گھر واپس نہیں ہوتا۔ تبریز کے ایک چاچا مقصود عالم نے ایک خبر رساں ادارے کو بتلایا کہ صبح ساڑھے پانچ بجے کے قریب تبریز اپنی بیوی شائستہ پروین کو فون کر کے بتلاتا ہے کہ وہ مصیبت میں پڑ گیا ہے۔ گھر واپسی کے راستے میں اس کو دھات کڈی نام کے گائوں میں لوگوں نے پکڑ لیا ہے۔ ایک آدھ گھنٹے میں تبریز کے گھر والے تیار ہوکر دھات کڈی پہنچتے ہیں تو اس وقت تک تبریز انصاری کو پولیس گرفتار کر کے لے جاتی ہے۔ تبریز انصاری کی بیوی اور رشتہ دار جب پولیس اسٹیشن پہنچتے ہیں تو تبریز بات کرنے کے موقف میں نہیں رہتا اور گھر والوں کو پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے تبریز کو چوری کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔ جیل جانے کے بعد 21؍ جون کی شام تبریز انصاری نے اپنی طبیعت خراب ہونے کی شکایت کی۔ 22؍ جون کو تبریز جیل میں ہی بے ہوش ہوگیا۔ دواخانے لے جانے پر ڈاکٹرز نے تبریز انصاری کو مردہ قرار دیا۔ اس وقت تک بھی تبریز انصاری کی موت شہ سرخیوں میں نہیں آئی تھی لیکن جب ’’جھارکھنڈ جن ادھیکار مہاسبھا اور سی پی آئی (ایم) نے سوشیل میڈیا پر ویڈیوز پیش کرتے ہوئے الزامات لگائے کہ تبریز انصاری کو جئے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہوئے ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔‘‘ (بحوالہ دیباشیش سرکار کی ہندوستان ٹائمز میں شائع 24؍ جون کی رپورٹ)
تبریز انصاری کی ہجومی تشدد کے ہاتھوں موت کی شکایت انصاری کی بیوی شائستہ پروین نے پولیس میں کی اور تبریز انصاری کو جئے شری رام او رجئے ہنومان کے نعرے لگانے پر مجبور کرنے اور مارپیٹ کی ویڈیو جلد ہی پورے ہندوستان اور ملک سے باہر بھی پھیل گئی اور ہجومی تشدد کی مذمت میں ملک و بیرونِ ملک سے بیانات اور احتجاج کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی پس منظر میں تبریز انصاری کی موت کی خبر جو بھی سن لیتا اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی اور لوگ اس کی معصوم بیوہ شائستہ پروین کے بارے میں فکر مند ہوجاتے کہ دو مہینے کی اس دلہن کا اب کیا ہوگا، یہ اور ایسی ہی ملتی جلتی فکروں کے ساتھ بعض ہمدرد احباب نے اس غریب بیوہ کے لیے مالی امداد کرنے کی اپیل جاری کی۔ شائستہ پروین کے بینک اکائونٹ اور فون نمبرس کو بھی دردمند ہندوستانیوں نے ایک دوسرے تک پہنچایا تاکہ صاحب ثروت اور اصحاب خیر اس مظلوم غریب بیوہ کی راست مدد کرسکیں۔
امانت اللہ خان دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین اور دہلی اسمبلی میں اوکھلا کے ایم ایل اے ہیں ۔ انہوں نے تبریز انصاری کی ہجومی تشدد کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد تبریز کی بیوہ کو دہلی وقف بورڈ کی جانب سے 5 لاکھ نقد مالی امداد اور دہلی وقف بورڈ میں شائستہ پروین کے لیے نوکری کی پیشکش کا اعلان کیا۔ 29؍ جون کو امانت اللہ خان کانگریس کے لیڈر اور عوامی شاعر عمران پرتاپ گڑھی کے ہمراہ جھارکھنڈ کے سرائے کیلا گائوں میں تبریز انصاری کے گھر پہنچے تاکہ دہلی وقف بورڈ کی مالی امداد اور نوکری کا لیٹر شائستہ پروین کو دے سکیں تب تبریز کی بیوہ شائستہ پروین نے جو بات بتلائی اس کے متعلق شمالی ہند کے اردو اخبار ہند سماچار نے 29؍ جون کو ایک خبر اپڈیٹ کی جس کو پڑھ کر ہر مسلمان کا سرشرم سے نیچا ہوگیا۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق پوری دنیا سے امن پسند لوگ بلاکسی امتیاز کے تبریز انصاری کے قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا دلوانے کی مانگ کر رہے ہیں اور اس کی کم عمر بیوہ کی ہمدردی میں اپنے اپنے طور پر اقدامات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف تبریز انصاری کی بیوہ شائستہ پروین نے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان کو بتلایا کہ اس کے چاچا سسر اور تبریز انصاری کے منجھلے چاچا مشہور انصاری نے بیوہ کے اکائونٹ سے سات لاکھ روپئے کی رقم اپنے اکائونٹ میں ٹرانسفر کرلی۔
بیوہ کی زبانی یہ شکایت سننے کے بعد امانت اللہ خان نے تبریز کے چچا مشہور عالم کی خوب سرزنش کی اور انہیں بیوہ کے پیسے واپس کرنے کی وارننگ دی۔ ادھر امانت اللہ خان، دہلی واپس ہوئے ادھر تبریز کے چچا نے ایک ویڈیو بنائی اور تبریز کی بیوہ سے بیان دلوایا کہ شائستہ پروین نے اپنی مرضی سے اور بغیر کسی کی زبردستی کے اپنے اکائونٹ سے سات لاکھ روپئے اپنے چاچا سسر کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کروائے ہیں۔
اب تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ شائستہ پروین کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔ ہم تو دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہجومی تشدد سے اور ہر طرح کے تشدداور مسائل اور پریشانیوں سے مسلمانوں کی حفاظت فرما اور ساتھ ہی اس بات کے لیے بھی دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت ہجومی تشدد میں جان گنوانے والوں کے لواحقین کو ان کے اپنوں کے استحصال اور غیروں کے استحصال سے بھی محفوظ فرما۔
قارئین کتنی افسوسناک بات ہے کہ پوری دنیا کے امن پسند لوگ تبریز انصاری کی بیوہ کے لیے انصاف کی مانگ کر رہے ہیں اور دوسری طرف تبریز کے کچھ رشتہ دار اس کی بیوہ کے اکائونٹ سے ہی پیسے اپنے اکائونٹ میں منتقل کروانے میں مصروف ہیں۔ پیسوں کی بات نکلی تو یاد آیا کہ 26؍ مئی کو اترپردیش کے علاقے گونڈ سے ایک خبر آئی کہ مہناز بیگم نام کی ایک خاتون ہاں 23؍ مئی کو ایک لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام بی جے پی کے قائد اور وزیر اعظم مودی کے نام پر نریندر مودی رکھنے کا اعلان کیا۔ بس کیا تھاایک مسلم خاتون نے اپنے نومولود کا نام نریندرمودی رکھا تو پورے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں یہ خبر خوب نشر ہوئی۔ خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے مہناز بیگم کے متعلق بتلایا کہ ان کا شوہر دوبئی میں ملازم ہے اور جب اس خاتون نے اپنے بچے کا نام نریندر مودی رکھنے کا اعلان کیا تو خود اس کے گھر والوں نے اس کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود بھی مہناز بیگم نے مسلمانوں اور غریبوں کے لیے نریندر مودی کے فلاحی کاموں سے متاثر ہوکر اپنے بچے کو نریندر مودی کا ہی نام دینے کا فیصلہ پر اٹل رہنے کا اشارہ دیا۔
خبر آئی اور پھر چلی گئی۔ لوگ اس خبر کو بھول ہی جانے والے تھے کہ ایک مہینے بعد 30؍ جون 2019ء کو اخبار انڈین ایکسپریس نے اسد رحمان کی ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق اتر پردیش کے گونڈ کی رہنے والی مہناز بیگم جس نے ایک ماہ قبل ہی اپنے نومولود کا نام نریندر مودی رکھنے کا اعلان کیا تھا اب اپنے بچے کا نام تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ قارئین اخبار انڈین ایکسپریس نے جو تفصیلی رپورٹ شائع کی وہ پوری خبر دلچسپ ہے اور ہم مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ سے کم نہیں۔
انڈین ایکسپریس کے رپورٹر رحمان نے لکھا کہ گونڈ کے گائوں پر ساپور مہرور کی رہنے والی مہناز بیگم کو نہ تو 23؍ مئی کو لڑکا ہوا اور نہ وہ نریندر مودی کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ تو اس کا ایک رشتہ دار ہے جس کا نام مشتاق احمد ہے جو ہندی اخبار ’’ہندوستان‘‘ کا رپورٹر ہے اس نے دراصل یہ سارا ڈرامہ کیا۔ یہاں تک کہ مہناز بیگم کی ڈیلیوری بھی 23؍ مئی کو نہیں ہوئی بلکہ ان کے ہاں لڑکا تو 12؍ مئی کو ہی پیدا ہوگیا تھا۔ مہناز نے بتلایا کہ وہ تو ان پڑھ ہے۔ اس کو مودی کے بارے میں بھی زیادہ نہیں معلوم لیکن اس کا ایک رشتہ دار مشتاق ہے جو جرنلسٹ ہے، اس نے ایک بیان اس سے منسوب کر کے میڈیا میں خبر پھیلادی اور رپورٹر مشتاق نے اپنے اخبار میں ایک رپورٹ شائع کروادی کہ ایک مسلمان خاتون نے اپنے نومولود کا نام نریندر مودی رکھا۔
مہناز کا شوہر دوبئی میں میسن کا کام کرتا ہے۔ اپنے بچے کے نام پر اٹھے تنازعے کو لے کر وہ اتنا ناراض ہے کہ اب وہ اپنی بیوی کے خرچے کے 4ہزار روپئے ماہانہ بھی نہیں بھجوا رہا ہے۔ مہناز کے سسر، 61 سال کے محمد ادریس نے اپنی بہو اور اس کے رشتے کے بھائی کو جو جرنلسٹ ہے سارا الزام دیتے ہوئے کہا کہ 22؍ مئی کو میری بہو اور مشتاق نامی اس کے رشتہ دار نے مل کر یہ سازش رچی۔ 24؍ تاریخ کو مشتاق نے اپنے اخبار میں اس کی خبر بھی شائع کی۔ گائوں کے ریاض احمد نامی ایک شخص کے مطابق مہناز کو بتلایا گیا کہ اگر وہ اپنے بچے کے نام مودی کے نام پر رکھے گی تو اس کے بچے کو سرکار کی سرپرستی ملے گی اور بہت فائدے ملیں گے۔ لیکن گائوں میں کسی نے میڈیا کو بتلادیا کہ کہ مہناز کو لڑکا 23؍ مئی کو نہیں پیدا ہوا بلکہ یہ لڑکا 12؍ مئی کو گائوں سے 15 کلومیٹر دور وزیر گنج کے سرکاری دواخانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس سارے تنازعہ میں اب مہناز پریشان ہے کیونکہ اس نے جرنلسٹ مشتاق کے مطابق سرکاری محکمے میں ایک Affidavit بھی جمع کرواکر خود ہی دعویٰ کیا کہ اس کو 23؍ مئی کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اس نے نریندر مودی رکھنے کا فیصلہ کیاہے۔ مہناز پریشان ہے کہ بچے کا نام مودی رکھنے پر اس کے گھر والے اس کا شوہر اور اس کے رشتہ دار بھی ناراض ہیں۔ اب وہ اپنے رشتہ دار جرنلسٹ کی باتوں میں آکر کرنے والی غلط بیانی کا اعتراف کرتے ہوئے ڈر رہی ہے کہ کہیں سرکار اس کو غلط بیانی کرنے کی پاداش میں سزا نہ دے ڈالے۔ ہر طرف سے پریشان مہناز اپنے شوہر کی ہندوستان آمد کی منتظر ہے۔ وہ کہتی ہے کہ شوہر پیسہ نہیں بھیج رہا ہے۔ جب وہ دیوالی پر گھر آئے گاتب وہ اس کو سمجھانا چاہتی ہے۔ اس کا وہ رشتہ دار جو جرنلسٹ تھا وہ بھی اس کو جھوٹا کہہ رہا ہے۔ اس کے مطابق اس نے اخبار میں وہی کچھ لکھا جو مہناز نے بتلایا تھا۔
قارئین آج کا ہر مسلمان دانشور دشمنوں کو پہچاننے اور ان کے ساتھ لڑائی کرنے والے افراد سے مقابلے کے لیے تیاری کی بات کر رہا ہے۔ میرا یہ سوال ہے کہ وہ دشمن جو سامنے ہے اس سے تو ہم لڑہی لیں گے اور مقابلہ کی تیاری کرلیں گے لیکن اس دشمن کا کیا کریں جو دوست بن کر ہمارے ساتھ ہماری صفوں میں ہی چھپا بیٹھا ہے اور کھلے دشمن کے مقابلے بہت زیادہ نقصان دہ اور ہلاکت خیز ثابت ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پوری امت مسلمہ کی ظاہری دشمنوں اور باطنی دشمنوں ہر دو کے شر سے، فتنوں سے ، سازشوں اور شر پسندی سے حفاظت فرمائے اور ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔ (آمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com