ججس کے تقرر کا مسئلہ

   


ہندوستان میں عدلیہ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے ۔ عدلیہ پر ملک کے عوام کا اٹوٹ ایقان بھی ہے اور جسے بھی کہیں سے انصاف نہیں ملتا وہ عدلیہ پر انحصار کرتا ہے ۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے اپنے لئے انصاف طلب کرتا ہے ۔ ملک کی حکومتیں بھی عدالتی عمل میں مداخلت نہیں کرسکتیں اور حکومتوں کے مسائل بھی بسا اوقات عدالتوں کے ذریعہ حل کئے جاتے ہیں۔ ملک میں عدلیہ کو جو عوامی اعتماد حاصل ہے وہ اٹوٹ ہے اور اس کے ذریعہ ہی عوام عدالتوں پر انحصار کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں لاکھوں مقدمات اب بھی عدالتوں میں زیر التواء ہیں کیونکہ عدالتوں پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے اور ججس کی تعداد دستیاب نہیں ہوتی ۔ حالیہ عرصہ میں عدالتوں میں بھی مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے ججس کے تقررات پر قدیم مروجہ طریقہ کار کو بدلنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ فی الحال جو طریقہ ہے اس کے مطابق عدالتوں میں ججس کا تقرر سپریم کورٹ کالجیم کی سفارش پر کیا جاتا ہے ۔ اس کیلئے بھی ایک مروجہ طریقہ کار ہے ۔ کسی بھی جج کے تقرر سے قبل سفارش کی جاتی ہے ۔ امکانی جج کے تعلق سے تفصیلات اکٹھا کی جاتی ہیں اور پھر مشاورت کے بعد یہ تقرر عمل میں آتا ہے ۔ اس میں کسی ایک گوشے سے ہی قطعی اختیار کے استعمال کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جس کے نتیجہ میں اب تک ملک میں عدلیہ کو عوامی اعتماد حاصل ہے ۔ حکومتوں کی جانب سے راست تقررات کا عمل سبھی پر عیاں ہے کہ اقرباء پروری والا ہوتا ہے یا پھر سیاسی وابستگیوں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ ہر حکومت اپنی پسند کے افراد کا نامزد عہدوں پر تقرر عمل میں لاتی ہے تاہم یہ طریقہ کار ججس کے تقررمیں اختیار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا عدالتی نظام اور انصاف رسانی کا نظام آج بھی مستحکم ہے اور ملک کے عوام کو اس سے امیدیں وابستہ ہیں۔ اب تک جو طریقہ کار اختیار کیا جاتا رہا ہے وہ نہ صرف قدیم بلکہ آزمودہ بھی ہے ۔ اگر بدلتے وقتوں کے ساتھ طریقہ کار میں تبدیلی کی گنجائش نکلتی ہے تو اس کو اختیار کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
گذشتہ دنوں تاہم مرکزی وزیر کرن رجیجو نے سپریم کورٹ کالجیم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے ۔ اس طرح سے کرن رجیجو نے عمومی رائے بنانے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے کالجیم کو بالواسطہ طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عدلیہ یا ججس پر تنقید نہیں کر رہے ہیں لیکن ان کی رائے کو ججس اور وکلا کی تائید بھی حاصل ہے ۔ جہاں تک کرن رجیجو کا سوال ہے انہوں نے حالانکہ عدالتوں میں ججس کے تقررات کے مسئلہ پر کالجیم کو تنقید کا نشانہ تو بنایا ہے لیکن انہوں نے اس کا کوئی متبادل پیش نہیں کیا ہے ۔ اگر اس طرح سے تنقید کی جاتی رہی اور کوئی متبادل تجویز پیش نہیں کی گئی تو اس سے صورتحال بہتر ہونے والی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے اس مسئلہ پر کوئی اتفاق رائے پیدا ہوسکتا ہے ۔ کالجیم کا جو نظام ہے اس میں اگر کسی اصلاح کی ضرورت یا گنجائش ہے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعہ تقررات کے عمل کو مزید فعال اور متحرک بنایا جاسکتا ہے لیکن کسی متبادل تجویز کے بغیر محض ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کی یکسوئی نہیں کی جاسکتی ۔ عدلیہ کی اہمیت کا جہاں تک سوال ہے تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ جمہوریت کے ایک ستون کی حیثیت سے ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے میں عدلیہ نے اہم اور سرگرم رول ادا کیا ہے ۔ اس کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی اس پر بے وجہ تنقیدیں کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں سوال پیدا کئے جانے چاہئیں۔
جہاں تک کالجیم کا سوال ہے تو یہ بات درست ہے کہ یہ ایک قدیم طریقہ کار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ آزمودہ طریقہ کار ہے ۔ اس کی افادیت اور اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر اس میں کسی طرح کی اصلاح اور بہتری کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ایسا ضرور کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم راست حکومت کے ذریعہ تقررات کی بات کرنا عدالتی نظام اور انصاف رسانی کیلئے درست نہیں کہا جاسکتا ۔ اس انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ پر تفصیلی تبادلہ خیال کے ذریعہ اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہئے اور سبھی کی رائے لیتے ہوئے سبھی کیلئے مناسب کوئی مستقل راہ دریافت کی جانی چاہئے ۔