کھیتوں میں سنگھاڑے کی فصل لگاکر شہرت پانے والے پدم شری کسان چودھری سیٹھ پال کے تاثرات
سہارنپور: 11 جون (یواین آئی) پدم شری چودھری سیٹھ پال سنگھ، جو سہارنپور ضلع کے ایک ترقی پسند کسان ہیں اور جو زراعت میں نئی تحقیق اور مطالعہ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر کوئی کسان جدید ٹکنالوجی اور اعلیٰ معیار کے بیجوں کا استعمال کرے ، تو صرف روایتی کھیتی سے اس کی آمدنی تین سے چار گنا بڑھ سکتی ہے ۔ کھیتوں میں سنگھاڑے کی فصل لگا کر ملک بھر میں شہرت حاصل کرنے والے چودھری سیٹھ پال سنگھ کو اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے سال 2022 میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا تھا۔ انہوں نے کہا‘ہم اپنے عام کھیتوں میں کمل اور کھیرے کے ساتھ شنگھاڑا کاشت کرتے ہیں، جو وسط جون سے دسمبر کے وسط تک اگائی جاتی ہے اور کاشتکار اس فصل سے دیگر فصلوں کے مقابلے میں براہ راست دگنی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالواسطہ طور پر سنگھاڑے کی بیل کے پتوں کو کھیت میں کمپوسٹ کیا جاتا ہے ، کھیتوں میں کیمیکل کی مقدار میں اضافہ اور کاربن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ فصل میں کھادوں اور کیڑے مار ادویات کی مقدار کم ہو جاتی ہے ۔ اپنے کھیت میں جہاں ہم نے سنگھاڑے کی کاشت کیا، وہاں پوسا باسمتی 1509 کی پیداوار ساڑھے سات کوئنٹل فی بیگھہ تھی، یعنی 110 کوئنٹل فی ہیکٹر سے زیادہ۔ اپیڈاکے سینئر سائنسدان ڈاکٹر رتیش شرما اورآئی اے آر آئی کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر اے کے سنگھ کے ذریعہ گہرائی سے مطالعہ کے بعد بتایا کہ کھیت میں کافی نامیاتی کاربن کی وجہ سے فصل کی پیداوار دوگنی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے ۔ یہ ہماری نامیاتی کاشتکاری اور قدرتی کاشتکاری کی بنیاد ہے ۔ ہمیں اپنے زرعی سائنسدانوں کی جدید ترین تکنیکوں کو اپنا کر اور میعاری بیجوں کے ذریعہ کسان اپنے کھیتوں سے سونا اگا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبز انقلاب کی آمد کے بعد پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں پیداوار رک گئی ہے ۔ اس تصور کو توڑ کر ایک نئے باب کا آغاز کرنا ہو گا کہ لاگت زیادہ، پیداوار کم اور کھیتی باڑی خسارے کا سودا ہے ۔ ہمیں مویشی پروری، ویلیو ایڈیشن، گنے ، گندم، دھان، سبزیاں، دالوں اور تیل کے بیجوں کو شامل کر کے ایک ماڈل تیار کرنا ہو گا تاکہ کسان روزانہ کی آمدنی حاصل کر سکے ۔