جدید ٹکنالوجی کا المیہ،حقوق کا احترام نہیں

   

ابوزہیر حافظ سید زبیر ہاشمی نظامی
اللہ تعالیٰ کی اس وسیع و عریض کائنات میں اس کی قدرت کی نشانیاں ہر طرف موجود ہیں۔ قرآن مجید و فرقان حمید میں جہاں بنی آدم کیلئے زندگی گزارنے کے طور طریقے موجود ہیں، وہیں اس کائنات میں موجود ہر چیز کے قوانین مذکور ہیں۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا ’’ائے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا‘‘۔ (سورۂ اٰل عمران آیت ۱۹۱)یقیناً اس نئے دور میں جو ڈیجیٹل ٹکنالوجی عروج پر ہے، اس سے ہمارے رہن سہن پر بہت سے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خانگی دفاتر ہوں، یا سرکاری دفاتر، دینی ادارے ہوں یا دنیوی ادارے، اکثر معاملات میں انسانوں کی جگہ، کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ اس کا کچھ حد تک فائدہ تو ہوا ہے۔ جہاں برسوں کا کام مہینوں میں، مہینوں کا کام ہفتوں میں، ہفتوں کا کام، دنوں میں اور دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو رہا ہے۔ وہیں ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں بیروزگار افراد کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔
اس نئے دور کا انداز اتنا زیادہ بدل گیا ہیکہ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اسکے پاس جاکر پیشانی پر ہاتھ رکھنے کے بجائے، آلۂ گفتن (فون) پر حال پوچھا جاتا ہے۔ اس معاشرے کے بچے، جوان اور ضعیف (بوڑھے) حضرات بھی اتنے زیادہ ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے عادی بن گئے ہیں کہ سب جمع ہوکر ایک دوسرے کی محفل سے استفادہ بھی کرنا نہیں چاہتے ہیں، بلکہ اپنے موبائیل پر ٹک ٹاک، واٹس ایپ، فیس بک، ٹیلی گرام، انسٹاگرام دیکھنے اور اس میں کھیل کھیلنے میں لگے ہیں۔والدہ (ماں) کی گود جو پہلی درسگاہ ہے، والد جو تربیت کا منبع و مرکز ہے۔ اور شام یا رات کے وقت والدین و گھر کے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر علم و ادب، تعلیم و تربیت کی باتیں سننا اور سیکھنا تو تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اس نئے دور کی چیزیں اتنی تیز ہوتی جارہی ہیں کہ والدین کو معاش یعنی روزگار میں اتنا زیادہ مصروف کردیا ہے کہ وہ بچوں سے دور ہوگئے۔ اور بچے و نوجوان نسل فون، کمپیوٹر، لیاب ٹاپ اور دیگر اشیاء میں ایسے مصروف ہوگئے ہیں کہ والدہ کا پیار، والد کی شفقت بھول گئے ہیں۔ (اللہ ہر ایک کی حفاظت فرمائے)۔
یہ جدید آلات ایسے ہیں کہ جو معصوم بچوں کی ذہنی تربیت کرنے سے تو قاصر ہیں، بلکہ اِن آلات سے بے حساب غیرضروری معلومات فراہم کرکے نوجوان نسل کو تعلیم کے بجائے گمراہی کا راستہ ملتا ہے۔ آج کے دورِ جدید میں بچوں کے اندر اپنے دادا، دادی، نانا، نانی، پھوپا، پھوپی، خالو، خالہ، چچا، چچی جیسے رشتوں کا پاس و لحاظ کچھ نہیں رہا۔
اب معاملہ تو اتنا سنگین و خطرناک ہوتا چلا جارہا ہے کہ بچوں اور نوجوان نسل کے چہروں کی چمک اور ذہنوں کی معصومیت غائب ہوتی جارہی ہے۔ ایمان و اعتقاد کی باتیں قصۂ ماضی ہونے لگی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے بھرے ہوے اِس دور میں حقیقی طور پر ہم گلوبل ویلیج بن چکے ہیں۔ نئے آلات پر کھیل، واٹس ایپ، فیس بک، ٹک ٹاک، اسناپ چاٹ، انسٹاگرام، اور ٹیلی گرام وغیرہ پر تصویر، ویڈیو اور تحریر بھیجنا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ سات سمندر پار ہو تو بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ خبر اچھی ہو یا بری، خوشی کی اطلاع ہو یا غم کی اطلاع، ولادت کی خوشخبری ہو یا انتقال کی اطلاع، ساری دنیا میں سب کی تفصیلات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ اور اسی بنیاد پر موجودہ نئے دور کا انسان کسی قدر بے حس ہوتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ زمانہ میں خوشیوں کا مزہ جو تھا اور غم بانٹنے کیلئے سب چلے آتے تھے، جدید دور کی تیزی نے سب کو سست کردیا ہے۔
غور کیجئے کہ یہ ٹکنالوجی و ڈیجیٹل دور کا ہی نتیجہ ہے کہ اب لوگ بینک کے باہر طویل قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے کی اذیت سے بچ کر اپنے دفتر، گھر بلکہ جس جگہ بھی ہو، سکون کے ساتھ صرف آلۂ گفتن (فون) پر فون پے، گوگل پے، پے ٹی یم و دیگر سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے، چند بٹن دباکر گھر کا بل (ٹیکس کی صورت میں) ، برقی کا بل، پانی کا بل، گیس کا بل، فون کا بل، پٹرول و ڈیزل کا بل وغیرہ ادا کردیا جاتا ہے تو وہیں بڑی آسانی کے ساتھ یا سامان آنے کے بعد رقم ادا کرتے ہوئے، آن لائن خریداری (گھر کا اناج، کھانے پینے کی تیار اشیاء، گھریلو زندگی سے متعلق ضروری اشیاء یہاں تک کہ شادی بیاہ تک کا سامان) کرسکتے ہیں، جس کی بناء دورِ حاضر کے انسان کے قدموں میں یہ اشیاء لاکر رکھ دی ہے۔
یاد رکھیں : ہمارا دین، دین اسلام ہے، دینِ اسلام کے علماء (اسکالرس) کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون سے زیادہ مقدس قرار دیتا ہے۔ اگر اس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہم مسلمانان عالَم اپنے دینِ اسلام کے پیغام کو سمجھ بوجھ کر علمی و تحقیقی عروج سے فائدہ اٹھانے لگ جائیں تو ہم سب اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کرپائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین