جرائم پر اسلامی سزائوں کے مصالح

   

اللہ سبحانہ نے انسانو ں کو تمدن بخشا ہے ‘انسانیت نواز تعلیمات پر عمل پیرا رہنے ہی سے ایک متمدن معاشرہ وجود میں آسکتا ہے‘ انسانی طبائع مختلف ہوتے ہیں‘کوئی خیر پسند ہوتا ہے تو کوئی شر پسند ‘ تعلیم و تربیت خیر پسند انسانوں کو مزید خیر پسند بناتی ہیںبعض شرپسندوں پر تعلیم و تربیت کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیںجس سے وہ ایک اچھے خیر پسندو نفع بخش انسان اور ملک کے اچھے شہری بن جاتے ہیں‘ بسا اوقات شرپسندوں پر تعلیم و تربیت اثر انداز نہیں ہوتے تو وہ معاشرہ کا ناسور بن جاتے ہیںجس سے انسانی تمدن پر آنچ آتی ہے ‘صحت و تندرستی کی بقا کیلئے جیسے جسمانی زخم کو کبھی مرہم پٹی اور کبھی نشتر زنی کی ضرورت پڑتی ہے جس کومتاثرہ انسان اور اس کے لواحقین بخوشی قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کو صحت عزیز ہوتی ہےاور عقل انسانی بھی اس کو تسلیم کرتی ہے ‘ اسی طرح انسانی تمدن شرپسندوں کی شرپسندانہ کارستانیوں سے گہناجاتا ہے اس لئے تمدن کی حفاظت کیلئے ایسے غیر سماجی عناصر پر جرم کی مناسبت سے سزائوں کا نفاذ ضروری ہوجاتاہے ‘کوئی انسانی معاشرہ اس سے مستغنی نہیں رہ سکتا‘جرائم پر مناسب سزائیں گویا سماجی ڈھانچہ کی اصلاح کے لئے آپریشن جیسی ہیں ‘ان سزائوں کے بغیر صالح تمدن اور پاکیزہ معاشرہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ‘جمہوری ملک میں سیاسی سرپرستی یا انسانی بنیادو ں پر مجرموں کےساتھ نرمی و رحم دلی کا سلوک برتنے کی جارحانہ مانگ اوراس کی تائید و حمایت میں جلسے ‘جلوس کے دبائوکی وجہ انصاف کا قانون کمزور پڑجائے تو پھرفتنہ و فساد کی آگ بھڑکتی رہے گی‘انسانیت و شرافت شرمسار ہوتی رہے گی اور انسانی اعلیٰ اخلاق واقدارکا خون ہوتا رہے گا‘یہی کچھ اب ہمارے ملک میں ہونے لگا ہے ‘ جس تمد ن میں مجرموں کو کھلے عام جرائم کے ارتکاب کی کھلی چھوٹ مل جائے تو پھر مظلوموں کی داد رسی کون کرے گا ؟اس کی پاکیزگی کیسے برقرار رہ سکے گی ؟ یہ بات یقینی ہے کہ اس سے معاشرہ کا چین و سکون رخصت ہوگااور وہ صالح طبیعت و پاکیزہ فطرت انسانوںکے رہنے کی جگہ باقی نہیں رہ سکے گا ‘جرائم پر سزائوں کا نفاذجرائم کوپوری طرح ختم نہ کرسکے تو کم از کم ان کے وقوع میں ضرور کمی لاسکتاہے اور معاشرہ کو پرامن بنائے رکھنے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ کرئہ ارض پرجتنے خودساختہ انگنت مذاہب وجود میں آئے ہیں ان سب میں جرائم پر سزائوں کا تصور پایا جاتا ہے خاص طورپر تورات ‘ زبور‘ انجیل وغیرہ جیسی آسمانی کتابوں میں یہ احکام مفصلاً بیان ہوئے ہیں یہاں تک کہ ان کے موجودہ تحریف شدہ ایڈیشنس میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے لیکن افسوس اس وقت وہی اکثر جرائم کو خوشنما ناموں کے ساتھ سماج میں پھیلانے کے ذمہ دار ہیں خاص طور پر اسلامی سزائو ںکے غیر انسانی اور وحشیانہ ہونے کا الزام لگاکر انہوں نے انسانیت کو گمرا ہ کرنے کا مسلسل کام کیا اور جرائم کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے ‘ جس سے معاشرہ انارکی کے نہ تھمنے والے سیلاب کی زد میںہے‘ اور وہ گناہوں و جرائم سے ایسے زہر آلود ہوگیا ہے کہ اس کی زہر ناکی سمیت و مسمومیت سے انسانی تمدن متوحش و مکدر ہے ‘اس وقت مغرب زدہ ماحول میںاجنبی مردوں و عورتوں کا اختلاط‘ آبروبختانہ‘حیاسوز‘ نیم عریاں رقص و موسیقی ‘زنا‘عیاشی‘شراب نوشی کا چلن اس قدررچ بس گیا ہے کہ وہ اب زندگی کے لوازمات میںشامل ہے‘مجرمانہ نفسانی خواہشات کی اسیر ناقص ومریضانہ ذہنیت ان ناجائز و ناشائستہ اشغال کو زندگی کا حاصل مانتی اور ان کے بغیر زندگی کوبے کیف و بے مزہ خیال کرتی ہے‘ اب سوال یہ ہے کہ سماج سے جرائم کے خاتمہ کیلئے ا نسانوں کے بنائے ہوئے قوانین موثر ہونگے یا خالق کائنات کےنازل کردہ ‘دانشوروں ملک و ملت کی فلاح و بہبود کی فکر رکھنے والوں اور معاشرہ کو درپیش مسائل کا اچھا حل ڈھونڈنے والوں کیلئے قابل غور بات یہی ہے کہ ان دونوں میں کونسے قوانین بہتر ہوسکتے ہیں جن سے جرائم کا سدباب ہواورتمدن داغدار ہونے سے محفوظ رہ سکے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا خالق اورخلائق کو وجود بخشنے والا ہے‘ انسانی فطرت کو اس سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے؟ انسانیت کی صلاح و فلاح اور انسانی معاشرہ کی سدھار کیلئے اس کے بنائے ہوئے قوانین سے زیادہ اور کونسے قوانین بہتر و مفید ہوسکتے ہیں؟اسلامی سزائوں کا ایک مقصود توفساد فی الارض کو روکنااور انسانی معاشرہ سے فتنہ و فساد کی بیخ کنی کرناہے ‘دوسرا مقصودخود مجرمین کی اور سماج میں رہنے والے دوسرے جرائم پسند ذہنوں کی اصلاح بھی ہے تاکہ جرم ہلکا پھلکا ہو تو اس کی سزاء پانے کے بعد مجرم کو اپنے جرم کا احساس ہو اور وہ دوسرے بڑے جرائم کے ارتکاب سے بچ سکے ‘نیز دیگر شرپسند عناصر کو عبرت حاصل ہو اور جرم کی مناسبت سے دی جانے والی عبرت ناک اسلامی سزائوں کے ڈر و خوف سے وہ جرائم سے باز رہیں‘ درحقیقت اسلام کی سزائیں فطرت کے عین مطابق ہیں ‘سارے انسان حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی ذریت ہیں اس وجہ سے وہ گویا جسد واحد ہیں ‘مجرمو ں کو حسب جرم سزا دینا گویاعلاج و معالجہ کے ذریعہ اس (جسد) کی صحت و تندرستی کا تحفظ کرناہے ‘ یہ بھی کہ انسانیت سوز جرم کے مرتکبین کو دی جانے والی سزائیں کسی طور بھی ان سےسرزد ہونے والے گھناونےجرائم کے بالمقابل شدید نہیں ہیں ‘مختصر یہ کہ اس بارے میں اسلام کا نقطہ نظر انسانیت پر ناروا ظلم نہیں بلکہ دفع مفاسد ومصالح کاحصول اورتمدن کو صالح بنیادوں پر استوار رکھناہے۔

اسلامی سزائوں کو عقوبت کہا جاتا ہے جو اللہ سبحانہ کے اوامرونواہی کی مخالفت کرنے والوں کیلئے اسلام نے مقرر کی ہیں (السیاستہ الشرعیہ ؍۱۲۰) اس کا مقصود اللہ سبحانہ کے اوامر کی بجاآوری اور محرمات سے اجتناب پر طبائع میں آمادگی پیدا کرنا اور خلق خدا کو جن سے نقصان پہنچتا ہوان سے بچانا ہے( الاحکام السلطانیہ للماوردی؍۲۲۱)جہاں تک انسانی معاشرہ کا تعلق ہے اس میں مسلم و غیر مسلم دونوں پائے جاتے ہیں‘اسلام کی مقررہ سزائوں کے نفاذ سے مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش و معافی اوران کے باطن کی تطہیرہوتی ہےجو ان کو اُخروی باز پرس سے بچاتی ہے ‘غیر مسلم جرائم کے مرتکب ہوںتو ان پر سزائوں کی اجرائی سے ان کو اخروی نفع تو نہیں پہنچ سکتا البتہ اس سے معاشرہ کی تطہیرضرور ہوتی ہےاور انسانی معاشرہ کی پاکیزگی برقرار رہتی ہے ‘اسلام کے تعزیری قوانین کا ایک اور مقصد مظلوم کے انتقامی جذبہ کی تسکین بھی ہے ‘اسلام نے اس کے ساتھ عفو و درگزر کی ترغیب بھی دی ہے ‘’’پس جس کسی کو اس کے بھائی (مقتول کے وارث ) کی طرف سے معافی مل جائے تو چاہئے کہ دستور کے مطابق مقتول کا وارث خوںبہا طلب کرے اور قاتل کو چاہئے کہ وہ بہتر انداز سے اس کو ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت و رحمت ہے ‘‘(البقرہ : ۱۷۸)‘تاکہ مظلوم انسان ظالم و مجرم انسان کے ساتھ مکارم اخلاق سے پیش آئے اور خالق کائنات کے ہاں بخشش و مغفرت ‘اکرام و احترام کا مزید مستحق بنے ۔ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّهُ لَكُمْکا مژدئہ جانفزا ‘ ایسے ہی حلیم الطبع‘ بردبار عفوو درگزرکے صفات حمیدہ سے متصف افراد امت کے لئے ہے۔اسلام نام ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کرنے کا ‘اللہ سبحانہ نے جو حدیں (DEAD LINES)مقرر کردی ہیں ان سے تجاوزکی ہر گز کسی کو اجازت نہیں ہے‘ارشاد باری ہے یہ اللہ سبحانہ کی (مقرر کردہ ) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلو (البقرہ : ۲۲۹) یہ اللہ سبحانہ کی مقررہ حدیں ہیں ان کے قریب بھی نہ جانا (البقرہ : ۱۸۷)
اس لئے اللہ سبحانہ کی مقررہ ’’حدود‘‘ سے تجاوز پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیںان کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں ’’حدود‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ‘ حدود دو طرح کے ہیںایک تو حلال و حرام ‘ جائزو ناجائزہر دو امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے زندگی گزارنا ‘حلت و حرمت کے یہ احکام کھانے پینے ‘تعلقات زن و شو‘تجارت و کاروبار ‘معاشرت وغیرہ جیسے زندگی کے سارے شعبوں سے جڑے ہوئے ہیں ‘ ان سے تجاوز سخت منع ہے ‘ان حدود کا لحاظ رکھنا ایمان کی حفاظت و سلامتی کیلئے ضروری ہے ان میں سے اکثر کی خلاف ورزی پر اخروی گرفت اور سزا کی وعید وارد ہے ‘دوسرے وہ سزائیں بھی ’’حدود‘‘کے دائرہ میں آتی ہیںجو جرائم پر مقرر کی گئی ہیں‘اسلامی سزائوں کی دو صورتیں ہیں ایک ’’حدود‘‘ دوسرے’’ تعزیرات‘‘ ‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جن جرائم پر سزائیں مقررکی ہے وہ ’’حدود‘‘ کہلاتی ہیں ‘ اس کے برعکس تعزیرات ایسی سزائوں کو کہتے ہیں جو حاکم وقت کی اختیاری ہیں جرم کی مناسبت سے جیسے اس کی قباحت و شناعت ہوگی‘ حسب حال سزا کی تجویز حاکم کے صوابدید پر رکھی گئی ہے۔قصاص بھی حدود میں شامل نہیں چونکہ یہ بندے کا حق ہے (فتح القدیر۵ ۳/)‘ اسی لئے مقتول کے ورثاء کوخوں بہا لے کر یا اس کے بغیرہی اس کو معاف کرنے کا اختیار ہے ‘ بعضوں نے شرعی سزائوں کو جو اللہ سبحانہ کے حق کے طور پر ہوں یا بندوں کےدونوں کو حدود میں شامل رکھا ہے ۔( کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۷/۵)
جرم کے متحقق ہونے پر اسلامی سزائوں جیسے قصاص لینے ‘حدود قائم کرنے اور تعزیرات کے نفاذ کا حق افرا د یا تنظیموں یا خاندان وقبیلہ کےسربراہوںکونہیں دیا ہےبلکہ یہ حق قاضیء اسلام (حاکم) کو حاصل ہےجمہوری ممالک میں عدالت میںجرم کے ثبوت پر آئین کی رو سے یہ حاکم کا حق ہے ۔عدل و انصاف کو قائم رکھنے اور ملک کو افراتفری سے بچانے کی یہی ایک صورت ہے۔ سزائوں کے نفاذ میں اسلام نے اس پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔اسلام کے تمام احکام کی بنیاد حکمت و مصلحت پر مبنی ہے جو انسانوں کے ساتھ عدل و انصاف کے مطابق اور ان کے حق میں اور انسانی معاشرہ کے حق میں باعث رحمت ہیں ‘ جن سے انسانیت کی صلاح و فلاح اخروی خیر و بھلائی وابستہ ہے ۔