کیا ہندوستان سن رہا ہے جو گھر والوں کو بے گھر کررہا ہے
’’شب یکجہتی ‘‘ کے عنوان سے بے گھروں کو بھی اپنا بنانے کی مہم
برلن ۔ 31 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) جرمن دارالحکومت کی شہری انتظامیہ نے پہلی مرتبہ بے گھر افراد کی مردم شماری شروع کر دی ہے۔ ’شبِ یکجہتی‘ کے نام سے اس پیش رفت کا مقصد عملایہ ثابت کرنا ہے کہ برلن ’شہر اپنے بے گھر شہریوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے‘۔برلن صرف وفاقی جمہوریہ جرمنی کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ایک شہری ریاست کے طور پر ایک وفاقی صوبہ بھی ہے۔ برلن کی صوبائی حکومت اس منصوبے کے یذریعے یہ جاننا چاہتی ہے کہ شہر میں بے گھر افراد کی مجموعی آبادی کتنی ہے، تاکہ ایسے باسیوں کی فلاح و بہبود کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔لیکن ساتھ ہی ‘شبِ یکجہتی‘ کے نام سے اس پیش رفت کے دو دیگر مقاصد بھی ہیں: ایک یہ کہ بے گھر افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں رہائشی سہولیات مہیا کی جا سکیں اور دوسرے یہ کہ عملی طور پر یہ بھی ثابت کیا جا سکے کہ یہ شہر ان باسیوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے، جن کا کوئی گھر نہیں ہے۔برلن دنیا بھر میں یہ کام کرنے والا صرف تیسرا شہر ہے۔ جرمن صدر مقام سے قبل امریکہ میں نیو یارک اور فرانس میں پیرس کی شہری حکومتیں بھی یہ کوششیں کر چکی ہیں کہ انہیں علم ہونا چاہیے کہ وہاں ایسے افراد کی درست تعداد کتنی ہے، جن کے سروں پر کوئی چھت نہیں ہوتی۔شہری ریاست برلن میں ایسا کیے جانے کا کئی سماجی فلاحی اداروں کی طرف سے کافی عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔اس منصوبے پر عمل 29 جنوری کی رات کیا گیا، جس دوران تین گھنٹے تک شہر کے سبھی حصوں میں ہزاروں رضاکاروں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ حتمی نتائج کچھ ہی عرصے میں سامنے آ جائیں گے۔ان رضاکاروں کی تعداد تین ہزار سات سو سے زیادہ تھی اور انہیں تین سے لے کر پانچ افراد تک کی سینکڑوں ٹیموں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان ٹیموں کو بے گھر افراد کی مردم شماری کا کام مجموعی طور پر 617 ایسے پہلے سے مختص کردہ شہری علاقوں میں کرنا تھا، جن میں سے کوئی بھی بہت وسیع نہیں تھا۔اس ‘مردم شماری‘ کے دوران رضاکاروں کا کام یہ تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی تعداد گنیں، جو سڑکوں، فٹ پاتھوں یا عوامی مقامات پر رہتے یا شب بسری کرتے ہیں۔اس دوران ایسے افراد سے جو چند مختصر سوالات پوچھے گئے، وہ ان کی عمر، صنف اور شہریت کے علاوہ اس بارے میں تھے کہ وہ کب سے بے گھر ہیں۔برلن کے میئر میشائل میولر کے مطابق اس عمل کا مقصد بے گھر افراد سے متعلق ایسی پالیسی تیار کرنا ہے، جو زمینی حقائق کے عین مطابق ہو اور جس کے ذریعے ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ عملی مدد بھی یقینی بنائی جا سکے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برلن میں اس وقت 36 ہزار افراد ایسے ہیں، جو شہری حکومت کی طرف سے مہیا کردہ رہائش گاہوں اور شیلٹر ہاؤسز میں رہتے ہیں۔ایسے افراد میں سے 84 فیصد مرد اور 16 فیصد خواتین ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد کا تعلق کسی نہ کسی ایسے ملک سے ہے، جو یورپی یونین کا رکن نہیں ہے۔