ڈاکٹر حافظ سید شاہ خلیل اللہ اویسؔ بخاری
دین اسلام سارے ادیان میں افضل و اکمل دین ہے اور اس کی ہر ایک ادا ، حکم اور رہنمائی ہمیں دین، دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضامن ہے۔ آج اگر یہ دین عالم میں تیزی سے پھیل رہا ہے تو وہ اپنی حقانیت کی بنیاد پر پھیل رہا ہے نہ کہ ہمارے اخلاق اور کردار کی بنا پر ۔ آج علم دین و دنیا عام ہو چکا ہے اور گھر بیٹھے ہی علم دین کا خزانہ حاصل ہو رہا ہے، دین اسلام کی اتنی اشاعت کے باوجود بھی معاشرے میں پائی جانے والی برائیاں بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں، ان قابل مذمت برائیوں میں سے ایک برائی دھوکہ بھی ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں لڑائی جھگڑے عام ہیں۔
دنیا کی دولت کمانے کی دُھن میں دھوکہ اور اس طرح کے دوسرے ذرائع کا سہارا لیا جارہا ہے۔ کبھی کوئی تاجر کا روبار میں دھو کہ سے کام لے رہا ہے تو کبھی کوئی مالی معاملات میں غبن سے کام لے رہا ہے اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ فی زمانہ اسے بُرا بھی نہیں جانا جا رہا ہے۔ دھوکہ و غبن کی تعریف یہ ہے کہ برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا ، کسی چیز کا عیب چھپا کر اُس کو بیچنا، اچھی چیز بتا کرخراب دینا، غلط بیانی کر کے کسی کا مال لے لینا، صحیح چیز کے ساتھ خراب بھی ڈال دینا ہے۔ یاد رکھئے ! علمائے کرام وفقہاء عظام نے دھوکے بازی اور دغا بازی کو قطعاً حرام، گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام قرار دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺکا غلے کے ایک ڈھیر پر سے گزر ہوا، پس آپ ﷺنے اُس میں اپنا ہاتھ داخل فرمایا تو آپؐ کی اُنگلیوں میں تری محسوس ہوئی ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: اے غلے والے! یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! بارش کی وجہہ سے یہ گیلی ہوگئی ۔ آپ ﷺنے فرمایا: تو تو نے اس ( بھیگے ہوئے حصے ) کو غلے کے اوپر کیوں نہ کر دیا۔ تا کہ لوگ اسے دیکھ لیں (یا درکھ ) جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔
آج ہمارا معاشرہ عبادت کی کمی کے باعث آفات و مصیبتوں میں مبتلا نہیں ہے بلکہ ہمارے معاملات خراب ہو چکے ہیں۔ ہماری نظر دوسروں کے مال و دولت پر ہے، کسی کو بھی Sleeping Partner / Investment کہہ کر کاروبار میں شامل کیا جارہا ہے اور دو تین ماہ تک اس کا بہترین فائدہ منافع کہہ کر دیا جارہا ہے اور اس کے بعد اسے دھوکہ (ڈوبا ) دیا جارہا ہے، اس کیلئے کاروبار کرنے والا بھی اور پیسہ لگانے والا دونوں بھی ذمہ دار ہیں۔ پہلی بات تو منافع کی رقم کو مختص کر کے لینا اور متعین کرنا خود سود بن جایا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری قوم کو بنا کوئی محنت و مشقت مال کمانا ہے اس لئے وہ اپنی محنت کی کمائیوں کو صرف حرص وطمع میں دوسروں کے حوالے کر رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کا مالیہ کوئی نہیں بلکہ مسلم دھو کہ باز لوٹ رہے ہیں اور ہم پہلے ہی سے مالی طور پر بہت کمزور ہیں اوران دھوکہ بازوں کےجال میں پھنس کر اپنی باقی دولت سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں ۔
اللہ عزوجل نے امانت داری کو اہل جنت کے صفات میں شمار فرمایا ہے اور امانت داری کا حکم دیا ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا کہ جس کے پاس امانت داری نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس کے پاس ایفاء عہد نہیں اس کا دین نہیں ، نیز امانت میں خیانت کرنا منافقین کی علامت بھی ہے۔
کاش! ہم اس موم بتی کی طرح ہو جائیں، جو خود تو پگھلتی رہتی ہے،مگر دوسروں کو روشنی دے کر فائدہ دیتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں امانت دار بنائے اور خیانت کرنے سے محفوظ رکھے۔آمین