منگیتر کو اِنصاف کی اُمید
استنبول ۔ترکی کی ایک عدالت میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں 20 سعودی شہریوں کے خلاف مقدمے کی پہلی سماعت کے موقع پر ان کی منگیتر نے عدالت میں کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ایک عظیم غداری اور فریب کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے عدالت میں کہا کہ ان کے قتل کے ذمہ دار تمام افرادکو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔خدیجے چنگیز نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو سابق ساتھیوں اور 18 دیگرسعودی شہریوں کی غیر موجودگی میں مقدمے کے آغاز کے موقع پر اپنا بیان درج کروایا۔واضح رہے کہ 25 مارچ کو ترکی کے پراسیکیوٹر نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دو قریبی ساتھیوں سمیت 20 افراد پر باقاعدہ فرد جرم عائد کردی تھی۔قتل کی واردات کے بعد تمام 20 سعودی ملزمان ترکی سے روانہ ہوگئے جبکہ سعودی عرب نے ان کی حوالگی کے ترکی کے مطالبات کو مسترد کردیا تھا۔2019 میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 نامعلوم افراد کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی افراد پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے سزاؤں کا اعلان کیا تھا اورکہا تھا کہ دیگر تین افرادکو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔سعودی پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ عدالت نے 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی جس میں سے تین کو بری کردیا گیا۔عدالت نے متاثرہ شخص کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت کا حکم دیا تھا جبکہ قتل کو چھپانے اور قانون کی خلاف ورزی پر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی تھی۔بیان میں کہا گیا تھا کہ مقدمے کی تحقیقات میں31 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 21 کو گرفتارکر لیا گیا
جبکہ 10 افرادکو صرف سوال جواب کے لیے طلب کیا گیا کیونکہ عدالت کے پاس انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔اس مقدمے میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر اور کنسلٹنٹ سعود القحطانی پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے قتل کی مکمل منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے انہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں بری کردیا گیا تھا۔ان کے علاوہ عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد ال اسیری کو بھی بری کردیا تھا۔سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2017 سے امریکہ میں مقیم تھے۔تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔