مذکورہ انتظامیہ نے فیصل کے ”نظریہ“ کے بھی مخالفت کی جس میں وہ پبلک اڈمنسٹریشن میں ماسٹرس کے کورس کی تکمیل کے امریکہ سفر کرنا چاہتے تھے
نئی دہلی۔جموں کشمیر کے سابق ائی اے ایس افیسر شاہ فیصل کو”غیر قانونی تحویل“میں رکھنے سے نکار کرتے ہوئے مذکورہ جموں او رکشمیر انتظامیہ نے دہلی ہائی کورٹ کے روبر و یہ بات کہی ہے کہ ”قانونی دائرے کار میں رہ کر اختیار کر استعمال کیاگیا ہے جو مجاز اتھاریٹی کے منظور کردہ احکامات کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کا حصہ ہے“۔
مذکورہ انتظامیہ نے فیصل کے ”نظریہ“ کے بھی مخالفت کی جس میں وہ پبلک اڈمنسٹریشن میں ماسٹرس کے کورس کی تکمیل کے امریکہ سفر کرنا چاہتے تھے۔
اپنے ایک حلف نامہ میں جموں او رکشمیر انتظامیہ نے کہا ہے کہ ”کسی بھی قابل فہم مواد کی عدم موجودگی میں اس بات کو تسلیم نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر جو دستوری اداروں کی جانب سے5اگست2019کے روز لئے گئے فیصلے کی سختی سے مخالفت کررہے ہیں اور انہیں اکیڈیمک کورس پورا کرنے کے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے اور ایسے حالات میں کہ ان کے ھاس اسٹوڈنٹ ویزا بھی نہیں ہے“۔
حلف نامہ میں مزیدکہاگیا ہے کہ ”یہ 14اگست2019کو داخل کیاگیا ہے کہ مذکورہ درخواست گذار بی 1‘ بی 2ویزا(ٹورسٹ ویزا) پر سفر کررہے ہیں‘ جو ویزا ان کے پاسپورٹ پر لگا ہوا ہے‘ جو اسٹوڈنٹ ویزا نہیں ہے جس سے وہ امریکہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے“۔
انتظامیہ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاکہ فیصل نے سیول سرویس سے استعفیٰ دے کر سیاسی میدان میں چھلانگ لگائی اور ایک سیاسی تنظیم جموں او رکشمیر پیپلز منٹ کا قیام عمل میں لایا۔
اس میں کہاگیا ہے کہ فیصل کاغیر قانونی تحویل کا دعوی”غیر حقیقی سچائی ہے“۔جموں کشمیر انتطامیہ دہلی ہائی کورٹ میں فیصل کی جانب سے دائر درخواست کا جواب دے رہا ہے جس میں فیصل نے الزام عائد کیاکہ انہیں نئی دہلی کے ائی جی ائی ائیرپورٹ سے حراست میں لے کر ا ن کی مرضی کے بغیر کشمیر واپس کردیاگیاہے۔
وہیں انہیں فوری طور پر آزاد کرنے کے انتظامیہ کو ہدایت دینے کی بھی مانگ کی گئی۔ جسٹس من موہن اور سنگیتا دھنگر سہگل کی بنچ نے جموں کشمیر انتظامیہ سے جواب مانگا اور زوردیا کہ فیصل کی اہلیہ کو ان سے ملاقات کی منظوری دی جائے