جموں و کشمیر ‘ عمر عبداللہ ‘ نئی شروعات

   

مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر میں ایک دہے کے بعد عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت قائم ہوچکی ہے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے عمر عبداللہ نے آج حلف لے لیا ہے اور انہوں نے اپنی کابینہ بھی تشکیل دے دی ہے ۔ جموں و کشمیر میں جو حالات ہیں ان کی بالکل درست اندازہ تو وہاں کے عوام ہی لگا سکتے ہیں کیونکہ وہی ان حالات سے گذر رہے ہیں۔ ایک دہے تک عوامی حکومت کی عدم موجودگی کے نتیجہ میں کئی کام ایسے ہیں جو کئے نہیں جاسکے ہیں اور جن کا عوام کو انتظار تھا ۔ ایک دہے میں کوئی ایسی پہل دکھائی نہیں دی جس کے نتیجہ میں جموںو کشمیر کے عوام کی زندگیوںکو سہولت بخش اور آسان بنایا جاسکے ۔ انہیںممکنہ حد تک راحت پہونچا سکے اور علاقہ کے مسائل کو حل کیا جاسکے ۔ ایک دہے بعد بھی اب جبکہ وہاں عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت قائم ہوگئی ہے لیکن اب بھی جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے ۔ اب بھی یہ دونوںمرکزی زیرانتظام علاقے ہیں۔ ایک طرح سے یہ عوامی حکومت کے کام کاج میں رکاوٹ ہے کیونکہ مکمل ریاست نہ ہونے کی وجہ سے منتخب حکومت ہونے کے باوجود مرکزی حکومت کے نامزد کردہ لیفٹننٹ گورنر کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ ایسے میں انتخابی موسم میں عوام سے جو وعدے کئے گئے ہیں ان کی تکمیل آسان نہیں رہ جاتی ۔ کئی امور کو گورنر منظوری دئے بغیر التواء میں رکھ سکتے ہیں یا پھر ان کو مستردکرسکتے ہیں۔ ایسے میں مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ جموںو کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کرے ۔ اس طرح سے عوام کے ووٹ سے منتخب نئی حکومت وہاں حقیقی معنوںمیں عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے کام کرسکے گی ۔ جہاں تک عمر عبداللہ کاسوال ہے تو وہ جب تک جموںو کشمیر ریاست تھی وہاں کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں۔ انہیں سرکاری کام کاج کا تجربہ بھی حاصل ہے ۔ ان کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی ریاست کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں۔ تاہم مرکزی زیر انتظام علاقہ میں لیفٹننٹ گورنر کے اضافی اختیارات کے ساتھ کام کرنے کا انہیں کوئی تجربہ حاصل نہیں ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے عمر عبداللہ کو بہت جلد ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے ۔
جموںو کشمیر کے موجودہ حالات اور پھر وہاں کے عوام کی امیدوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمرعبداللہ کو ایک نئی شروعات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ماضی کے تجربات چاہے وہ تلخ ہوں یا اچھے رہے ہوں ان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نئے حالات میں تازہ امیدوں کے ساتھ کام کاج کا آغاز کرنا چاہئے ۔ سب سے پہلے ریاست کے عوام میں یہ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی بہتری اور فلاح و بہبود ہی حکومت کا اولین مقصد ہے ۔ جب ریاست کے عوام کو اعتماد میں لے کر کام کیا جائے گا اور انہیںبہتر حالات زندگی فراہم کرنے پر توجہ دیتے ہوئے اقدامات کئے جائیں گے تب حالات کو بدلنے کی سمت پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ صورتحال راتوں رات تبدیل نہیں ہوسکتی ۔ تاہم اس کیلئے شروعات فوری کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں ہی مرکزی زیرانتظام علاقوںمیں روزگار کی فراہمی پر حکومت کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہاں کے جو مقامی ذرائع معاش ہیں صرف ان پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا ۔ نئے ذرائع تلاش کرنے ہونگے ۔ عوام کو اور خاص طور پر نوجوانوںکو معیشت سے مربوط کرتے ہوئے انہیں ترقی کے سفر میں ساتھ لیا جاسکتا ہے ۔ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں ہی علاقوں کی معاشی صورت حال کو بہتر بناناوہاں کی ترقی اور حالات کو بہتر بنائے رکھنے کیلئے لازمی ہے ۔ اس معاملے میں ایک جامع اور مبسوط حکومت عملی بناتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے ۔
عمر عبداللہ حکومت کے استحکام پر فی الحال تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس تعلق سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انڈیا اتحاد کی کئی جماعتوں نے ان کی حلف برداری میںشرکت کرتے ہوئے اپنے ساتھ کا تیقن دیا ہے ۔ ایسے میں سرکاری عہدیدار ہوں یا پھر عوامی نمائندے ہوں یا حالات سے واقفیت رکھنے والے دردمند گوشے ہوں سبھی سے مشاورت ہونی چاہئے ۔ سب کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی تجاویز کے مطابق جموں و کشمیر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔ ایک نئی شروعات ایک نئے سویرے کی تلاش کیلئے ہونی چاہئے اور سارے ملک کو اس کا انتظار رہے گا ۔ شش