جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کا وعدہ

   


خاموش زندگی جو بسر کررہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کررہے ہیں ہم

پارلیمنٹ میں حکومت کے کسی نمائندہ کی جانب سے کوئی اہم وعدہ کیا جاتا ہے تو یہ ایک اہم اعلان ہوتا ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں و کشمیر کو ریاستی درجہ دینے کا وعدہ کیا ۔ اس وعدہ کی روشنی میں حکومت کی نیت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تضاد بھی دیکھا جائے گا ۔ جس علاقہ کو آرٹیکل 370 کے ذریعہ خصوصی موقف دیا گیا تھا اس کو اگست 2019 میں ختم کردیا گیا ۔ حکومت جب اس ریاست کو اپنی پالیسی کے مطابق دیکھ رہی ہے تو اس کے جو بھی اعلانات ہوں گے اس پر شکوک و شبہات بھی پیدا ہوں گے ۔ جموں و کشمیر کو توڑ کر دو حصہ کردینے اور دو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنا دینے کے منصوبوں کے پیچھے کئی راز پوشیدہ ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کے دوران لوک سبھا میں ہفتہ کے روز مناسب وقت میں ریاست کا درجہ دینے کی بات کہی ۔ ریاست کے اصل بنیادی مسائل پر توجہ دیئے بغیر صرف وقتی وعدے کئے جائیں تو اس پر یقین کرنے کے لیے حکومت کے عملی اقدامات کا انتظار رہتا ہے ۔ جموں و کشمیر اس وقت سیاسی اعتبار سے ایک گرما گرم سلگتا مسئلہ ہے ۔ پارلیمنٹ جیسی پروقار اور دستوری مرکز میں وزیر داخلہ کے اعلان میں کھوکھلا پن واضح دکھائی دیتا ہے ۔ جب حکومت نے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی برخاستگی کا سخت فیصلہ کیا تو اس کے بعد سے یہاں کے سیاسی مسائل کی یکسوئی کے لیے کوئی پہلی نہیں کی گئی ۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آخر حکومت کو 370 کی برخاستگی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔ اس حساس سرحدی ریاست میں فراخدلانہ فلاحی اقدامات کی ضرورت تھی وہاں صرف ظلم و زیادتیوں کی شکایات پائی جاتی ہے ۔ عوام کے حمل و نقل پر پابندیاں ، انٹرنیٹ پر پابندی ، سیاسی قائدین کو نظر بند کردینے کے اقدامات کو مرکزی حکومت کی زیادتیوں سے یاد کیا جارہا ہے ۔ ریاست کی اصل دھارے کی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو دوبارہ نظر بند کردیا گیا ۔ لاک ڈاؤن کے دوران پہلی نظر بندی ختم کردی گئی تھی پھر اچانک اس ماہ کئی قائدین نظر بند کردئیے گئے ۔ پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی ، نیشنل کانفرنس صدر فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ کے بشمول کئی قائدین کو ان کے گھروں میں مقید کردیا گیا ۔ گذشتہ 18 ماہ سے موبائل انٹرنیٹ اور براڈ بانڈ سرویس بھی بند رکھی گئی تھی ۔ اصل دھارے کی سیاسی پارٹیوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان کا گھیرا تنگ کردیا گیا ۔ فوج کی بھاری تعداد تعینات کرتے ہوئے کشمیری عوام کی روزمرہ زندگی کو ایک کھلی جیل بنادیا گیا ۔ یہ اقدامات مرکزی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کا ثبوت ہیں تو ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اب ریاستی درجہ دینے کی بات کس طرح قبول ہوگی ۔ کشمیری عوام بھی اپنے علاقہ میں ایک پروقار زندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ اپنے ارکان خاندان کے لیے ایک معیاری زندگی دینا چاہتے ہیں لیکن دیگر ریاستوں کے برعکس کشمیری عوام کو یہ سب نصیب نہیں ہے یہ لوگ برسوں سے معمول کی زندگی کو ترس رہے ہیں ۔ ان کا کاروبار ٹھپ ہے ۔ روزگار نہیں ہے ۔ خاص کر جموں و کشمیر کا سیاحت شعبہ بری طرح متاثر ہے ۔ کشمیری عوام کا سب سے بڑا روزگار سیاحت کے شعبہ سے وابستہ ہے لیکن گذشتہ کئی سال سے یہ تمام سرگرمیاں ٹھپ ہوچکی ہیں ۔ ایسے میں کورونا وائرس نے بھی ریاست کی ٹھپ صورتحال پر مزید ضرب لگائی ہے ۔ مودی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ فوری مالیاتی پیاکیج کا اعلان کرتے ہوئے کشمیری عوام کی روزمرہ زندگی کو بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی مگر حکومت نے ان کے جمہوری حقوق کو بھی نظر انداز کردیا ۔ لوک سبھا میں جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ترمیمی بل 2021 پر مباحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ کا بیان بھی قابل غور ہے کہ گذشتہ 70 سال سے اس ریاست کی تقدیر بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی یہاں کی 3 سیاسی خاندانوں کی پارٹیوں نے ریاستی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہے ۔ امیت شاہ کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ 17 ماہ میں مودی حکومت نے وہ سب کچھ کیا جو گذشتہ 70 سال میں نہیں کیا گیا یعنی عوام کی صحت کی دیکھ بھال سے لے کر ان کی روزمرہ کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے وزارت صحت سے 881 کرور روپئے جاری کئے گئے ۔ یہ رقم وزیراعظم کے ترقیاتی پیاکیج کا حصہ تھی اس کا سہرا امیت شاہ اپنی حکومت کے سرباندھ رہے ہیں ۔ اس وقت مرکز کو شعبدہ بازیوں کے بجائے عملی کام کر کے دکھانے کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے بنیادی طور پر جمہوریت کو بحال کیا جانا چاہئے اور تمام کشمیری قائدین سے مذاکرات شروع کی جانی چاہئے ۔۔