کرنا پڑا ہے تلخ حقیقت کا سامنا
دور ایک سنہرا ہم کو دکھاکر گزر گیا
مرکزی زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر میں صورتحال مسلسل بگڑتی جا رہی ہے ۔ تخریب کاری کے واقعات لگاتار پیش آ رہے ہیں جن میں نہ صرف مقامی افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ بیرون ریاست سے یہاں آ کر کام کرنے والے مزدوروں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے خلاف سکیوریٹی فورسیس کی کارروائیاں بھی جا ری ہیں۔ دونوں مرکزی زیر انتظام علاقوں میں اسملبی انتخابات کی تکمیل اور پھر وہاں عوام کے ووٹ سے جمہوری طور پر منتخب حکومت کے قیام کے بعد سے اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ مرکزی حکومت نے ریاست کا انتظام گذشتہ دس برسوں سے سنبھالا تھا ۔ وہاں دس برس بعد عوام کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملا تھا اور اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے عوام نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو ووٹ دیا اوروہاں حکومت قائم ہوگئی ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ ریاست میں عوام کے ووٹ سے جمہوری حکومت کے قیام کے بعد حالات بہتر ہونگے اور عوام کو راحت نصیب ہوگی تاہم حالات نے پلٹی کھائی ہے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ مرکزی حکومت کا یہ ادعا رہا تھا کہ گذشتہ دس برسوں میں جموں و کشمیر میںتخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے ۔ تشدد کے واقعات بہت کم ہوگئے ہیں اور حالات کو بہتر بناتے ہوئے ریاست کے عوام میں اعتماد کی فضاء پیدا کی گئی ہے تاہم اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ ان دعووں کی نفی کرتی ہے ۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کو صورتحال کا نوٹ لیتے ہوئے ان واقعات پر قابو پانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔ موثر حکمت عملی کے ذریعہ ریاست میں ام و امان کو بحال کرتے ہوئے سماج کے تمام طبقات میں اعتماد کی فضاء پیدا کی جانی چاہئے تاکہ ریاست کو جمہوری حکومت کے دور میں ترقی کے سفر پر گامزن کیا جاسکے ۔ تشدد اور تخریب کاری کے واقعات کا سلسلہ یونہی جا ری رہا تو پھر صورتحال میں بہتری کی امید دم توڑ سکتی ہے اور ریاست کے عوام کو اس طرح کے واقعات سے راحت نصیب نہیں ہوگی اور ترقیاتی اقدامات بھی ٹھپ کے ٹھپ ہی رہ جائیں گے ۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر میں پاکستان کی جانب سے دراندازی کی جاتی ہے اور تخریب کاری کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ریاست کی ترقی متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ کئی برسوں سے یہ لعنت وہاں درپیش رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ریاست بہت زیادہ پچھڑی ہوئی ہے ۔ عوام کو بے تحاشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ بیروزگاری عروج پر پہونچی ہوئی ہے ۔ نوجوانوں کیلئے ملازمت یا ترقی کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ صرف سیاحتی سرگرمیوں سے معیشت کو سہارا مل رہا تھا ۔تاہم تشدد اور تخریب کاری کے واقعات کے نتیجہ میں سیاحت پر بھی منفی اثر ہوسکتا ہے ۔ جوسیاحتی سرگرمیاں بتدریج وہاں بحال ہو رہی ہیں اور ان کے نتیجہ میں حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں وہ متاثر ہوسکتی ہیں۔ سیاحت کے نتیجہ میں دونوں ہی مرکزی زیر انتظام علاقوں کے عوام کیلئے معاشی مواقع دستیاب ہو رہے ہیں۔ دوسری ریاستوں کے عوام کو جموں و کشمیر کی خوبصورتی سے واقف ہونے اور سیر و تفریح سے لطف اندوز ہونے کے مواقع مل رہے ہیں۔ مختلف ریاستوں کے عوام جموں و کشمیر کے کلچر اور وہاں کے رہن سہن سے واقف ہونے لگے ہیں ۔ تاہم اگر تشدد اور تخریب کاری پر قابو پایا نہ جاسکا تو پھر یہ ساری سرگرمیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں کے عوام خوف کے عالم میں ریاست میں سیر و تفریح سے گریز کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ریاست کے معاشی استحکام کی سمت جو پیشرفت ہوسکتی ہے وہ متاثر ہو کر رہ جائے گی ۔ اس صورتحال کو مرکزی اور ریاستی دونوں ہی حکومتوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
تشددکے واقعات اور تخریب کاری کے نتیجہ میں ریاست میں جو نئی جمہوری حکومت قائم ہوئی ہے اس کیلئے بھی صورتحال مشکل ہی ہو جائے گی ۔ ایک دہے کے بعد جو عوامی حکومت قائم ہوئی ہے وہ عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے کام نہیں کر پائے گی ۔ اس کی عوامی ترقی کی اسکیمات پر عمل آوری مشکل ہو جائے گی ۔ اس کے علاوہ ریاست میں امن و امان کی بحالی کی سمت جو بتدریج پیشرفت ہو رہی تھی وہ بھی متاثر ہوجائے گی ۔ ایسے میں حکومت کو ان واقعات پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ان کے تدارک کیلئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔