جموں کے میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں مسلم طلبہ کا داخلہ

   

ہندوتوا تنظیموں کا احتجاج، داخلوں میں مذہبی ترجیح کا مطالبہ

سرینگر ۔ 16 نومبر (ایجنسیز) جموں میں اس وقت کشیدگی بڑھ گئی جب کئی ہندوتوا تنظیموں نے ماتا ویشنو دیوی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ایکسیلنس اور ویشنو دیوی شرائن بورڈ کے زیرِ انتظام میڈیکل کالج میں مسلم طلبہ کے داخلوں پر اعتراض کیا۔ یووا راجپوت سبھا، وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور راشٹریہ بجرنگ دل کی قیادت میں تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ چونکہ یہ ادارہ ایک ہندو یاترا دھام سے منسلک ہے، اس لیے یہاں داخلوں، تدریسی عملے اور بھرتیوں میں ‘‘ہندو امیدواروں کو ترجیح’’ دی جانی چاہیے۔ تنازعہ اْس وقت شروع ہوا جب ایم بی بی ایس کی پہلی داخلہ فہرست جاری ہوئی، جس میں 50 میں سے 42 نشستیں مسلم طلبہ کو ملیں ۔ یہ تمام انتخاب NEET میرٹ اور جموں و کشمیر ڈومیسائل قواعد کے تحت کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے اسے ’’مذہبی طور پر یکطرفہ‘‘ قرار دیا، حالانکہ ہندوستان میں کسی بھی میڈیکل ادارے میں مذہب کی بنیاد پر ترجیح دینا قانونی طور پر ممنوع ہے۔وی ایچ پی نے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ادارے کے ’’مذہبی کردار‘‘ کے تحفظ کیلئے پالیسی میں تبدیلی کی جائے۔ یہ مطالبہ بنیادی طور پر داخلوں اور تقرریوں میں مذہبی ترجیح دینے کے مترادف ہے، جس سے یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ایک عوامی خدمات فراہم کرنے والا ادارہ صرف اکثریتی جذبات کی تسکین کے لیے آئینی مساوات کو نظرانداز کر سکتا ہے؟قانونی اور تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ شرائن بورڈ کا یہ ادارہ اقلیتی درجے کا حق نہیں رکھتا اور آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کے علاوہ NEET کے ضوابط کے تحت کسی بھی مذہبی بنیاد پر ترجیح دینا مکمل طور پر غیرقانونی ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر ایسا راستہ کھولا گیا تو صحت کے شعبے میں بھی مذہبی بنیادوں پر دروازے بند کرنے کا خطرناک رجحان جنم لے سکتا ہے۔ہندوتوا گروپوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم طلبہ اور مسلم ڈاکٹروں کی بڑی تعداد عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ شرائن بورڈ اپنے قواعد میں تبدیلی کرے جبکہ سیول سوسائٹی اس احتجاج کو ایک عوامی ادارے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش قرار دیتی ہے جو بنیادی طور پر ہر مذہب کے لوگوں کی خدمت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔شرائن بورڈ نے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ جاری احتجاج کے دوران یہ معاملہ اس بڑے سوال کو جنم دے رہا ہے کہ کیا ملک کے عوامی اداروں پر آئینی تقاضوں کے بجائے ہندوتوا گروہوں کے دباؤ میں پالیسیاں تشکیل دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟