نبھاتا رہا جو وقارِ زمانہ
بنایا گیا ہے اسی کو نشانہ
ویسے تو سارے ملک میں بی جے پی پر مختلف جماعتوں کی جانب سے ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کی خرید و فروخت کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کو یا تو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ یا ان کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ یا پھر انہیںپیسے اور عہدہ کا لالچ دیتے ہوئے کروڑہا روپئے کے عوض خریدا جا رہا ہے ۔ بی جے پی نے گذشتہ برسوں میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں اسی طرح کا کھیل کھیلتے ہوئے وہاں کی منتخبہ حکومتوں کو زوال کا شکار کردیا تھا اور پچھلے دروازے سے اپنی حکومتیں تشکیل دیں۔ مہاراشٹرا میں بھی یہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے شیوسینا میں پھوٹ کروائی گئی اور بی جے پی کی تائید سے وہاں حکومت بنادی گئی ۔ گوا میں بھی سابقہ معیاد میں اسی طرح کا کھیل کھیلا گیا تھا ۔ شمال مشرق کی ریاستوں میں بھی بی جے پی اسی طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہی تھی ۔ گذشتہ مہینے دہلی میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ عام آدمی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ تاہم یہ کوشش ناکام ہوگئی ۔ تمام ہی معاملات میں بی جے پی نے اپنے کسی رول کی تردید کی تھی ۔ بہار میں بھی اسی طرح کے کھیل کے اندیشوں کو محسوس کرتے ہوئے نتیش کمار نے بی جے پی سے دوری اختیار کرلی اور پھر کانگریس اور آر جے ڈی کی تائید سے حکومت بنالی ۔ یہاں بھی بی جے پی نے اپنے کسی رول کی تردید کی تھی ۔ بی جے پی کی یہ عادت ہے کہ وہ بالکل واضح حقائق سے بھی انکار کردیتی ہے اور گودی میڈیا اس معاملے میں بی جے پی کا پوری طرح ساتھ دیتی ہے ۔ یہی کھیل تلنگانہ میں بھی کھیلا جانے والا تھا ۔ برسر اقتدار چار ارکان اسمبلی کو خریدنے 100 کروڑ روپئے کی الٹ پھیر ہو رہی تھی ۔ تلنگانہ پولیس نے اس سودے بازی کو ناکام بناتے ہوئے فارم ہاوز پر دھاوا کیا اور وہاں سے 15 کروڑ روپئے نقد رقم ضبط کی اور تین افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے ۔ جمہوری عمل سے مرکز میں حکومت بنانے والی بی جے پی خود جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے ۔
تلنگانہ میں اکثر و بیشتر بی جے پی قائدین کی جانب سے دعوی کیا جا تا ہے کہ ٹی آر ایس کے کئی قائدین اور ارکان اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں ۔ تاہم کبھی بات ان دعووں سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دی ۔ اب جبکہ چار ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش اور منصوبہ پوری طرح بے نقاب ہوگیا اورنقد رقم ضبط کی گئی اور تین افراد گرفتار کئے گئے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کس طرح سے بی جے پی مرکز میں اپنے اقتدار اور پیسے کی طاقت کا بیجا استعمال کر رہی ہے ۔ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو دھمکایا جا رہا ہے ۔ انہیں خوفزدہ کرتے ہوئے اپنی صفوں میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ یا پھر کچھ قائدین کو ہزاروں کروڑ روپئے کے کنٹراکٹس دیتے ہوئے اپنے ساتھ ملایا جا رہا ہے اور دوسروں کو پیسے کی طاقت سے خریدنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے ۔ اس کے ذریعہ اسی جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس جمہوریت کے ذریعہ بی جے پی کو مرکز اور ملک کی کئی ریاستوں میں اقتدار حاصل ہوا تھا ۔ یہ ایک طرح سے یہ جمہوریت کا قتل ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اسی طرح کا کھیل کھیلا گیا اور وہاں عوام کے ووٹ سے منتخبہ حکومتوں کو زوال کا شکار کرتے ہوئے عوامی رائے کے تقدس کو بھی پامال کیا گیا ۔ بی جے پی اقتدار کی ہوس اور طاقت کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار نظر آتی ہے اور اسی سے جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔
ابتداء میں دہلی اور بہار میں آپریشن لوٹس ناکام ہوا تھا اور اب تلنگانہ میں یہ آپریشن نہ صرف ناکام ہوا بلکہ اس کا پورا بھانڈا پھوٹ گیا ۔ یہ حقیقت ریاست اور ملک کے عوام کے سامنے واضح ہوگئی ہے کہ جہاں بی جے پی کو عوامی تائید حاصل نہیں ہوتی وہاں کس طرح کے ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں۔ کس طرح سے مرکز کے اقتدار اور پیسے کی طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ملک میں جمہوریت اور جمہوریت کے مستقبل کیلئے فکرمند عوام کو اس معاملے کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ جب تک عوام ایسی طاقتوں کو مسترد نہیںکریں گے اس وقت تک ان کے حوصلے پست نہیں ہونگے اور جمہوریت پر خطرات منڈلاتے رہیں گے ۔