جمہوریت مذاق بن گئی ۔ الیکشن کمیشن آزاد ہونا ضروری

   

انتخابی عہدہ کی ذمہ داری حکومتی عہدیدار کو سونپنا تشویشناک ۔ سپریم کورٹ کا ریمارک

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے آج کہا کہ الیکشن کمیشن کی آزادی کے معاملے میں کسی بھی جمہوریت میں مفاہمیت نہیں کی جاسکتی اور یہ کہ کسی اسٹیٹ الیکشن کمیشن کی اضافی ذمہ داری کسی حکومتی عہدیدار کو سونپ دینا جمہوریت سے کھلواڑ کے مترادف ہے ۔ عدالت نے کہا کہ جمہوریہ میں الیکشن کمیشن کے امور میں بیجا مداخلت کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ایسا کرنا جمہوریت کا مذاق اڑانا ہوگا ۔ عدالت نے کہا کہ برسراقتدار پارٹی کی جانب سے کسی حکومتی عہدیدار کو اسٹیٹ الیکشن کمشنر کی اضافی ذمہ داری سونپنا دستور کے ساتھ مذاق ہے ۔ سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے حکمنامہ میں کہا کہ گوا الیکشن کمیشن کو پنچایت چناؤ کیلئے اندرون 10 یوم اعلامیہ جاری کرنا ہوگا اور اسے انتخابی عمل /30 اپریل تک مکمل کرلینا ہوگا ۔ جسٹس روہنٹن فالی نریمن کی قیادت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ اسٹیٹ الیکشن کمشنرس کو آزاد اشخاص ہونا چاہئیے ۔ اور کوئی بھی ریاست کسی ایسے شخص کو الیکشن کمیشن کی کوئی ذمہ دار نبھانے کیلئے مقرر نہیں کرسکتی جو پہلے سے ہی حکومت سے جڑے کوئی دیگر عہدہ پر فائز ہو ۔ جسٹس نریمن نے یہ بھی کہا کہ کسی حکومتی عہدیدار کو اس طرح کی ذمہ داری سونپنا تشویشناک رجحان ہے ۔ کیونکہ وہ پہلے سے ہی حکومت سے وابستہ ملازم ہے اور کس طرح آزادانہ طور پر اضافہ ذمہ داری نبھائے گا ۔ گوا میں الیکشن کمیشن کا چارج ایک حکومتی آفیسر کو دیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس طرح کا اقدام غلط ہے ۔ عدالت نے گوا میں پنچایت چناؤ کے انعقاد سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلہ کو رد کردیا ۔ ہائیکورٹ کی گوا بنچ نے یکم مارچ کو وزارت شہری ترقی کے جاری کردہ اعلامیہ کو کالعدم کرتے ہوئے گوا کی مختلف میونسپل کونسلوں کے چناؤ کا انعقاد روک دیا تھا ۔ گوا میں 11 بلدی اداروں کیلئے انتخابات /20 مارچ کو مقرر ہیں جہاں لگ بھگ 2.5 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں ۔ گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کی گوا بنچ کے فیصلہ پر حکم التواء جاری کیا تھا ۔ گوا بنچ نے ریاستی وزارت شہری ترقی کے اعلامیہ کو کالعدم کیا تھا جو /5 میونسپل کونسلوں کے وارڈس میں ریزرویشن سے متعلق ہے ۔